ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
''اور نبی کریم ۖ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے پسند کیا جو اللہ اور اُس کے رسول ۖ نے ہمارے لیے پسند کیا اور ہم نے ناپسند کیا جو اللہ اور اُس کے رسول ۖ نے ہمارے لیے ناپسند کیا۔ '' فقہ حنفی کا مأخذ : پہلے یہ گزر چکا ہے کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بطورِ مفتی اور مشیر جن حضرات کو اپنے پاس ٹھہرایا تھا اُن میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی ہیں اور عبداللہ بن مسعود کے شاگردں میں حضرت علقمہ، علقمہ کے شاگرد اِبراہیم نخعی ،حضرت اِبراہیم نخعی کے شاگرد حضرت حماد اور حماد کے شاگرد اِمام اعظم اَبوحنیفہ رحمة اللہ علیہم ہیںاِس لحاظ سے فقہ حنفی کا سرچشمہ اور مورثِ اَوّل اِبن مسعود ہیں، آپ نے کوفہ کو جو علم سے بھرا تھا ،یہ تمام علوم نبی کریم ۖ کے شہر مبارک(مدینہ) سے مرادِ رسول سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں آئے تھے ،اِسی کوفہ میں علمی ماحول کو دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دُعا دی تھی : رَحِمَ اللّٰہُ اِبْنَ اُمِّ عَبْدٍ قَدْ مَلاَ َٔھٰذِہِ الْقَرْیَةَ عِلْمًا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اِبن مسعود رضی اللہ عنہ نے فقہ کا کھیت بویا اور علقمہ نے اُس کو پانی دے کر سیراب کیا اور اِبراہیم نخعی نے اُس کو کاٹا اور حماد نے اُسے گاہا ١ اِمام صاحب نے اُس کا آٹا پیسا اور اِمام اَبو یوسف نے اُس کو گوندھا اِمام محمد نے اُس کی روٹیاں پکائیں اور تمام لوگ کھا رہے ہیں۔ چونکہ کوفہ عرصۂ دراز تک اِسلامی علوم اور فقہ حنفی کا سر چشمہ رہا ہے اِس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کوفہ کی علمی مرکزیت کا بھی کچھ تذکرہ کردیا جائے۔ کوفہ کی علمی مرکزیت : تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حضرت سعد بن اَبی وقاص نے جب عراق فتح کیا تو فاروق اَعظم رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی تعمیر کا حکم دیا چنانچہ ١٧ھ میں کوفہ تعمیر کیا گیا اِس کے اَطراف و جوانب میں فصحائے عرب آباد کیے گئے اِس شہر کے آباد ہونے کے بعد بڑی تعداد میں ١ اَناج پر بیلوں کو پھرانا تاکہ بُھس اور اَناج الگ الگ ہو جائے،یہ کام آج کل تھریشر کے ذریعہ لیا جاتا ہے۔