ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
تعریف کرو گے تو وہ پتھر بھی ماردے گا تواُس کی تعریف یا خوشی کوئی چیز نہیں لیکن ایسے اَولیائے کرام کہ جو ہوش میں رہتے تھے اُن کی تعریف کا کیا ہے ؟ وہ یہی کہنا پڑے گا چونکہ اللہ نے فطرت میں رکھی ہے اور اللہ نے اَنبیائے کرام کو تو'' معصوم'' رکھا ہے اَولیائے کرام کو'' محفوظ'' رکھا ہے، بچاتے ہیں اللہ تعالیٰ کہ وہ اُس حد تک نہ آگے جانے پائیں کہ جس میں گناہ میں ملوث ہونا پڑے ۔ اپنی اچھی حالت پر خوشی ؟ ایک صحابی کا واقعہ : ایک صحابی نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھاایک آدمی آگیا اُس نے مجھے دیکھا میں بڑا خوش ہوا تویہ تو میرے دِل میں خوشی آگئی غیر کی وجہ سے غیر اللہ کی وجہ سے تو میری نماز ہوئی یا نہیں ہوئی اور کیسی ہوئی ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہوگئی کوئی بات نہیں، اگر کسی آدمی نے تمہیں اچھی حالت میں دیکھ لیا اور تمہیں یہ خیال آگیا کہ اِس نے مجھے اچھی حالت میں دیکھ لیا ہے تو اِس میں کوئی حرج نہیں ۔ ''دِکھاوا'' بری چیز ہے : اور دُوسری شکل یہ ہے کہ آپ نے دیکھا فلاں آدمی آرہا ہے تو نیت باندھ لی تاکہ مجھے دیکھ لے تویہ نیت باندھنا یہ رِیا کاری میں داخل ہے یہ بالکل غلط ہوجائے گا اور ایک یہ کہ آپ نے جب شروع کیا تو وہ نیت تھی ہی نہیں بعد میں اُس نے دیکھ بھی لیا تو اَلگ بات ہے ۔ یہاں ہمارے ہی علماء میں گزرے ہیں وہ بتلاتے تھے کہنے لگے مجھے ذہن میں یہ بڑا شک رہتا تھا کہ میں کہیں جاؤں مہمان ہوں اوروہاں تہجد پڑھوں تو لوگ دیکھیں گے تو کسی سے عرض کیا اُنہوں نے اُن کو ایک جواب دیا کہ وہاں جا کر شروع کرنا تہجد یہ تو غلط ہے لیکن اگر تم پہلے سے پڑھنے کے عادی ہو پھر کسی جگہ مہمان ہوجاؤ وہاں اُٹھ کر پڑھ لو تویہ اُس کے لیے نہیں ہے ،یہ پہلے سے چونکہ شروع کر چکے ہو وہ جاری رکھے رہو، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اُس میں تخفیف کر لو وہاں زیادہ نہ پڑھو کم کرلو تاکہ جو رِیا کاری کا حصہ ہے وہ ذرا سا کٹ جائے اُس میں سے ،لمبی نہ پڑھو مختصر کردو رکعتیں۔