ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
کو اِس بارے میں تامل ہوا کیونکہ اِن کے پشت پر کوئی طاقتور قبیلہ یا خاندان ایسا نہیں تھا جو اِن کی حفاظت کرے، تاہم اِبن ِمسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کردیا، یہ نو عمر لڑکا حرم میں پہنچا دو پہر کا وقت تھا مشرکین ِمکہ اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے، جب سورہ رحمن کی تلاوت کی آواز اُن کے کانوں میں گونجی تو یکے بعد دیگرے گھروں سے نکل آئے اور یہ دیکھ کر برہم ہوگئے کہ اِس اُمِ عبد کی یہ جرأت کہ اِعلانیہ محمد ۖ پر نازل ہونے والی وحی کی تلاوت کر رہا ہے تو اِبن ِمسعود کے منہ پر طمانچے مارنے شروع کردیے لیکن عبداللہ بن مسعود نے بھی مار کی پروا کیے بغیر سورۂ رحمن مکمل کی، مشرکین کو جب قرآن سنا کر دارِ اَرقم واپس آئے تو صحابہ اور حضور ۖ یہ حال دیکھ کر رنجیدہ ہوئے، نبی اَکرم ۖ نے اِرشاد فرمایا آپ کو بہت تکلیف اُٹھانی پڑی ہے، اِبن ِمسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا خدا کی قسم میرے دِل سے ڈر اور خوف ایسے نکل گیا کہ یہ لوگ مجھے بہت ہلکے دکھائی دینے لگے ، اَب جب حکم ہو بے خوف تلاوت سنانے کو تیار ہوں۔ حضرت عروہ بن زُبیر رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ۖ کے بعد اُونچی آواز سے مکہ میں قرآن کی تلاوت کرنے والے سب سے پہلے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء ج ٣) حضرت اِبن مسعود فرماتے ہیں کہ قرآن کی جو بھی سورة نازل ہوئی میں جانتا ہوں جس بارے میں نازل ہوئی، اگرمیرے علم میں یہ بات آتی کہ کوئی شخص اللہ کی کتاب کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے (اور) اُس تک اُونٹ اور سواریاں جاسکتیں تو میں اُس کے پاس پہنچ جاتا۔ (طبقات اِبن سعد ج ٢) ایک دفعہ حضرت اِبن مسعود بیمار ہوئے تو حضرت عثمان ذوالنورین آپ کی عیادت کے لیے آپ کے پاس تشریف لے گئے۔ پوچھا : مَا تَشْتَکِیْ آپ کیا تکلیف محسوس کرتے ہیں ؟ فرمایا : ذُنُوْبِیْ ، مجھے اپنے گناہوں کی تکلیف کا اِحساس ہے۔ پوچھا : فَمَا تَشْتَھِیْ ؟ آپ کی کیا خواہش ہے ؟