ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
مکتوب حضرت شیخ الحدیث بنام مفتی اعظم محمد شفیع صاحب ( حضرت مولانا ڈاکٹر محمد اِسماعیل صاحب زید مجدہم ) ض ض ض تمہید اَز حضرت شیخ الحدیث صاحب : کراچی میں اَوّلاً مفتی محمد شفیع صاحب کے مدرسے میں اُن کی عیادت کے لیے جانا ہوا، مفتی صاحب ضعف کی وجہ سے چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے، زکریا کو دیکھتے ہی بہت اِظہار ِمسرت کیا، ایک گھنٹہ زکریا اُن کی چار پائی پرلیٹا رہا، اَحباب ناشتہ وغیرہ کرتے رہے ،دو چار پائیاں برابر تھیں اور میں اور مفتی صاحب اِس طرح لیٹے تھے کہ ایک چار پائی پر یہ ناکارہ او دُوسری پر مفتی صاحب ،سر دونوں کے آمنے سامنے اور پاؤں اَلگ اَلگ، مفتی صاحب نے اپنے مدرسہ کی بہت ہی شکایات کیں، طلبہ کی طرف سے ،حکومت کی طرف سے اور یہ کہ بعض طلباء پڑھنا تو اُن کا مقصودنہیں ہوتا، غیر وں کے تنخواہ دار محض فساد ڈالنے کے لیے ہمارے مدرسہ میں طالب ِعلم بن کر داخل ہوتے ہیں، مفتی صاحب نے اُن کی بہت سی جزئیات بتائیں، زکریا نے بڑے اہتمام سے ساری گفتگو سنی اور کہا کہ یہ اِشکالات آپ ہی کے یہاں نہیں، ہم سب مدارس والوں کو پیش آتے ہیں، صورت میں کچھ تھوڑا سا فرق ہوجاتا ہے۔ ہمارے یہاں کے اسٹرائیک ١٣٨٢ھ میں اِس کے بڑے تجربات ہوئے کہ مدارس بلکہ اِسلام کے مخالف لوگوں نے بعض لوگوں کو تنخواہیں دے دے کر ہمارے اسٹرائیک میں شریک کیا، میرے نزدیک تو اِن سب کا واحد علاج ''ذکر اللہ کی کثرت'' ہے کہ جب کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا نام لینے والا نہ ہوگا تو قیامت قائم ہوجائے گی، جب اللہ تعالیٰ شانہ کا پاک نام ساری دُنیا کو تھامے ہوئے ہے تو مدارس کی کیا حقیقت۔ پھر مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد میں نے اِس مضمون کو یاد دہانی کے طورپر مفتی صاحب اور مولانا بنوری صاحب نور اللہ مرقدہما کو اَلگ اَلگ لکھے جوخصوصی مضامین کے علاوہ مشترک مضمون دونوں میں یہ تھا :