ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
حضرت حاجی صاحب عظیم مربی : تو مولانا تھانوی رحمة اللہ علیہ تعریف کرتے ہوئے اُن کی لکھتے ہیں کہ میں گیا وہاں تو میرا دِل چاہا کہ میں اُن سے مِلوں، میں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب رحمة اللہ علیہ سے عرض کیا کہ میں اُن سے ملنے کو جانا چاہتا ہوں ،کوئی حرج تو نہیں ہے ؟ اُنہوں نے کہا، نہیں، جائیں ،کہتے ہیں میں مِلا اور ہر دفعہ ملتا رہا کیونکہ وہ بھی حضرت حاجی اِمداد اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ تھے حضرت حاجی محمد عابد صاحب رحمة اللہ علیہ تو اِس نسبت سے ایک تعلق بھی تھا ،وہ کہتے ہیں میں پہلی دفعہ گیا تو ایک شخص نے شکایت کی وسوسوں کی وہ اُن سے بیعت ہوگا اور ذکر و اَذکار سیکھ رہا ہوگا اُس نے شکایت کی کہ وسوسے آرہے ہیںتو حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نے اُسے یہ جواب دیا کہ '' جب تم یہ ذکر کررہے ہو اِس میں لگے ہوئے ہو تو(اِس کی برکت سے) یہ آ نہیں رہے بلکہ جا رہے ہیں نکل رہے ہیں اور پھر تشبیہ دی اُنہوں نے یہ کہ چور جب آتا ہے تو اُس کا پتہ نہیں چلتا کہ کب آیا لیکن جب اُسے پکڑا جاتا ہے یا کھٹکا وَٹکا محسوس ہوتا ہے پھر جب بھاگتا ہے تو نظر آتا ہے تویہ جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں تمہیں ، مولانا تھانوی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے اُس میں کہ مجھے معلوم ہوا کہ حضرت حاجی صاحب بہت اچھے مربی بھی ہیں کہ اِنسان کو تسلی دے سکیں سمجھا سکیں تربیت دے سکیں اور یہ بات بالکل حدیث کے مطابق ہے۔ آقائے نامدار ۖ نے اِن چیزوں کو فرمایا کہ بس یہ وساوس ہیں اور'' فطرت'' جہاں تک تعلق ہے فطرت کا وہ(معاف اور) در گزر ہے۔ اپنی تعریف کرنا ، کروانا : مجھے ایک خیال آرہا تھا کہ رسول اللہ ۖ نے منع فرمایا ہے اپنی تعریف نہ سنو اور کوئی کسی کے سامنے تعریف کر رہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے تو اِس کی کمر توڑ دی یا قَطَعْتَ عُنُقَہ اِس کی گردن ہی مار دی تم نے تو، پسند ہی نہیں فرمایا اور فرمایا کہ جو تعریف کرے اُس کے منہ میں مٹی ڈال دو ، آئندہ تعریف ہی نہ کرے یا ایسی بات کہہ دو یا ترکیب کرو ایسی کہ وہ تعریف تمہارے سامنے تمہاری نہ کیا