ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
حاصلِ مطالعہ ( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور ) مروجہ فاتحہ دِلانے والے ایک صاحب سے گفتگو : حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی تھانوی فرماتے ہیں : ''ایک بار فلاں خان صاحب نے جو شاہجہانپور کے رہنے والے اور علی گڑھ کالج کے پرنسپل کے میر منشی تھے، اُنہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ صاحب فاتحہ دِلانا کیسا ہے اور وہ فاتحہ بہت دِلایا کرتے تھے،کہنے لگے کہ ہمارے یہاں یہ طریقہ ہے کہ جب کسی کو کچھ ثواب بخشنا ہوتا ہے تو اَوّل کھانا پکواتے ہیں جب کھانا پک چکتا ہے تو اَوّل اُس میں سے تھوڑا سا کھانا اَلگ نکال کر جو شخص فاتحہ دیتا ہے اُس شخص کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے تب وہ شخص فاتحہ دیتا ہے، اِس کے بعد اِس تمام پکے ہوئے کھانے کو تقسیم کردیا جاتا ہے تو اِس طریقہ سے ہم لوگ فاتحہ دِلاتے ہیں تو اِس کا کیا حکم ہے ؟ اور وہ خان صاحب اَنگریزی پڑھے ہوئے تھے کوڑ مغز بھی نہ تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ بجائے اِس کے کہ میں آپ کو اِس کا حکم بتلاؤں اِس کے متعلق آپ سے چند اُمور بطور ِ مقدمات کے بیان کرتا ہوں جن کو سن کر آپ خود ہی فیصلہ کر لیں گے کہ ایسی فاتحہ کا کیا حکم ہے ۔ میں نے کہا کہ یہ تو ظاہر ہے کہ آپ جو فاتحہ دِلاتے ہیں تو اُس سے آپ کا مقصود اِیصالِ ثواب ہے ،کہنے لگے کہ جی ہاں۔ تو میں نے کہا کہ اَوّل تو آپ یہ بتلائیے کہ اِیصالِ ثواب کی حقیقت کیا ہے ؟ کہنے لگے کہ اِیصالِ ثواب کی حقیقت یہ ہے کہ ایک نیک کام ہم نے کیا اِس کا ثواب