ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
دَرحقیقت وہی اِن سانحات کے ذمہ دار ہیں، مغربی سر حدوں پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف کافروں کی جنگ لڑنے والوں کو جب تک کٹہروں میں لا کر قرارِ واقعی سزا نہ دی جائے گی اور اُن کو قومی مجرم قرار نہ دیا جائے گا اُس وقت تک سانحات کو اُگلنے والی بھٹی ٹھنڈی نہ ہو سکے گی۔ ہندو بنیے کے حق میں اِس سے بہتر اور کیا پالیسی ہوسکتی تھی کہ اِس کی مشرقی سرحدات سے پشت پھیر کر پاک فوج کی ڈیڑھ دو لاکھ پر مشتمل نفری کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے مدمقابل مغربی سرحدوں کی طرف صف بستہ کردیا جائے تاکہ دونوں طرف سے مسلمان ہی لڑ بھڑ کرہلکان ہوتے رہیں۔ لال مسجد کا سانحہ وہاں کی بچیوں کا قتل ِعام، مدرسہ کی عمارت کا بم نصب کرکے اِینٹ سے اِینٹ بجادینا، اَفغانستان کے مسلمانوں اور پاکستان کے قبائل میں اَمریکی اِشاروں پر خون کی ندیاں بہا دینا اور اپنے مغربی آقاؤں کو راضی رکھنے کے لیے کئی عشروں سے علماء ِ حق کی شہادتوں کے سلسلہ کو جاری رہنے دینا، اُن کے قاتلوں کے خلاف کوئی کار روائی نہ کرنا، اِس پر مستزاد یہ کہ آئین شکن ''پرویز مشرف ''جس پر پاکستان کی سپریم کورٹ میں غداری کا مقدمہ چل رہا ہے وہ اپنے کردہ گناہوں پر نادِم بھی نہیں ہے بلکہ پوری ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے اُن کو درست قرار دیتا ہے۔ کئی برسوں سے سزائے موت کا قانون نادیدہ قوتوں کی خواہش پر تعطل کا شکار رہا، علمائِ کرام اور جج صاحبان وقتاً فوقتاً اِس تعطل کی مذمت اور سزائوں کے فوری اِجراء کا مطالبہ کرتے رہے مگر اَب پشاور سانحہ کی آڑ میںاِس کو فوری بحال کر کے راتوں رات ''لاقانونیت'' کے زور پر قانونی رُکاوٹوں کو دُور کر کے ضروری وقفوں کو نظر اَنداز کر تے ہوئے پرویز مشر ف پر حملہ کرنے والوں کو اِس لیے تختہ ٔ دار پر چڑھا دیا گیا کہ وہ چلتے پھرتے'' زِندہ مقتول'' کے قاتل ہیں، یوں ''زِندہ مقتول'' کے بدلہ میں کئی اَفراد کو سزائے موت دے کر اَندھی تاریخ رقم کردی گئی اور جیسے ''اچھے برے'' طالبان کا فرق ختم کر نے کا شاہی فرمان جاری کیا گیا بالکل اِسی طرح'' قاتل ''اور ''غیرقاتل'' کے فرق کو ختم کرتے ہوئے شاہی عمل کا اِجراء بھی کردیاگیا۔