ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
آرہا ہے، صرف اِن ہی کلمات میں اِمام دانی کی روایت کونظر اَنداز کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورۂ شوریٰ (آیت ٢٢) میں(رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ) کے دونوںلفظ جوکہ جمع مونث سالِم کے صیغے ہیں، جمع مونث سالِم کے قاعدے کی رُو سے اِن دونوں میں الف محذوف ہونا چاہیے مگرچونکہ اِمام دانی اور اِمام اَبو داود نے اِن دونوں لفظوں کوعام قاعدے سے مستثنیٰ کرتے ہوئے اِن میں اِثباتِ الف نقل کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک میں چھپنے والے تمام مصاحف میں مذکورہ دونوں لفظوں میں اِثباتِ الف ہی کو اِختیار کیاگیا ہے مگر اِمام شاطبی نے اپنی کتاب العقیلة میں جمع مونث سالِم کا قاعدہ بیان کرتے وقت اِن دونوں لفظوں کو عام قاعدے سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا اور اُن کے ہاں اِن دونوں لفظوں کا الف بھی دیگر جمع مؤنث سالِم کے الفاظ کی مانند محذوف ہی رہے گا، یہی وجہ ہے کہ بر صغیر کے تمام مصاحف میں اِن دونوں لفظوں میں الف اِمام شاطبی کے مذہب کے مطابق محذوف کرتے ہوئے دونوں پر کھڑی زبر ڈالی گئی ہے (ایسی ہی دیگر مثالوں کے لیے ملاحظہ فرمائیے راقم کا عربی مضمون رسم مصحف مطبعة تاج : دراسة نقدیة مقارنة ) ٭ اِسی طرح بر صغیرمیں مطبوعہ مصاحف کے رسم کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ قرآنی کلمات جن میں مشہور قرائِ کرام میں اِختلاف پایاجاتا ہے ایسے کلمات کے رسم الخط میں قراء کے اِختلاف کو ملحوظ ِ خاطر رکھاگیاہے، اِس کی بہت سی مثالیں ہیں جومیں نے اپنے مذکورہ عربی مضمون میں تفصیل سے بیان کی ہیں، یہاں میں صر ف دو مثالیں بیان کروں گا۔ پہلی مثال ہے لفظ (اَفْئِدَةً ) جو کہ قرآنِ پاک میں گیارہ مرتبہ آیا ہے،تمام جگہ میں (فائ) کے بعد والا (ہمزہ) بغیر کرسی (یاء کے شوشے) کے لکھا گیا ہے، مگرصرف سورہ اِبراہیم آیت ٣٧ (اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ)میں بر صغیرکے مطبوعہ و مخطوطہ مصاحف میں یاء کے شوشے پرہمزہ لکھاگیا ہے، اِس لیے کہ اِس میں ہشام (عن اِبن عامر الشامی) کی ایک اورقراء ٰ ت بھی ہے جس میں وہ ہمزہ کے بعد''یائ'' کا اِضافہ بھی کرتے ہیں جبکہ عرب ممالک میں چھپنے والے مصاحف میں اِس باریکی کا خیال نہیں رکھا گیا۔