ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
بلکہ اگریوں کہوں کہ اِس پاک نام کے مخالف حیلوں بہانوں سے مدارس میں داخل ہوتے جارہے ہیں تومیرے تجربہ میں غلط نہیں، اِس لیے میری تمنا ہے کہ ہرمدرسہ میں کچھ ذاکرین کی تعداد ضرور ہوا کرے، طلبہ کے ذکر کرنے کے توہمارے اَکابربھی خلاف رہے ہیں اور میں بھی موافق نہیں لیکن منتہی طلباء یا فارغ التحصیل یا اپنے سے یا اَکابر سے تعلق رکھنے والے ذاکرین کی کچھ تعداد مدارس میں علی التبادل ضرور رہا کرے اور مدرسہ اُن کے قیام کا کوئی اِنتظام کردیا کرے، مدرسہ پر طعام کا بار ڈالنا تومجھے بھی گوارا نہیں کہ طعام کا اِنتظام تو مدرسہ کے اَکابر میں سے کوئی شخص ایک یا دو اپنے ذمہ لے لے یا باہر سے مخلص دوستوں میں سے کسی کومتوجہ کرکے ایک ایک ذاکرکا کھانا اُس کے حوالہ کر دے جیسا کہ اِبتداء میں مدارس کے طلبہ کا اِنتظام اِسی طرح ہوتا تھا، اَلبتہ اہلِ مدارس اُن کے قیام کی کوئی صورت اپنے ذمہ لے لیں جومدرسہ میں ہو،اور ذکرکی کوئی ایسی مناسب جگہ تشکیل کریں کہ دُوسرے طلبہ کاکوئی حرج نہ ہو، نہ سونے والوں کا ،نہ مطالعہ کرنے والوں کا، جب تک اِس ناکارہ کا قیام سہارنپور میں رہا تو ایسے لوگ بکثرت رہتے تھے جو میرے مہمان ہو کر اُن کے کھانے پینے کا اِنتظام تو میرے ذمہ تھا لیکن قیام اہلِ مدرسہ کی جانب سے مدرسہ کے مہمان خانہ میں ہوتا تھا اور وہ بدلتے رہتے تھے، صبح کی نماز کے بعد میرے مکان میں اُن کے ذکر کا سلسلہ ایک گھنٹہ تک ضرور رہتا تھا اور میری غیر حاضری میں سنتا ہوں کہ عزیز طلحہ کی کوشش سے ذاکرین کی وہ مقدار اگرچہ نہ ہو مگر ٢٠،٢٥ کی مقدار روزانہ ضرور ہوجاتی۔ میرے سہارنپور کے قیام کے زمانہ میں تو سو، سوا سو تک پہنچ جاتی تھی اور غیبت کے زمانہ میں بھی سنتا ہوں چالیس پچاس کی تعداد عصرکے بعد جمعہ کے دِن ہوجاتی ہے، اُن میں باہر کے جو مہمان ہوتے ہیں جودس بارہ تک اَکثر ہوجاتے ہیں، عزیزی مولوی نصیر الدین سلمہ اللہ تعالیٰ اُس کو