ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
گردن پرجمایا اور اُس کا گلا گھونٹ دیا جس سے وہ بچہ مر گیا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام پھر اپنے وعدے پرخاموش نہ رہ سکے اور فرمانے لگے : ( اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّةً بِغَیْرِ نَفْسٍ ط لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُّکْرًا)(سُورة الکھف : ٧٤) ''کیا تونے مار ڈالی ایک ستھری جان بغیر کسی جان کے بدلے ؟ بے شک تونے ایک نامعقول کام کیا۔ '' حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو سوالیہ نظر سے دیکھا اور مسکراتے ہوئے فرمایا : میں اَب آپ کوکیا کہہ سکتا ہوں میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر سے نہیں رہ سکتے، حضرت موسٰی علیہ السلام تھوڑی دیر خاموش رہے پھرمعذرت کرتے ہوئے فرمایا میں اَب کبھی آپ سے سوال نہیں کروں گا اور اگرمیں ایسا کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے گا۔ ( قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُ نِّیْ عُذْرًا)(سُورة الکھف : ٧٦) ''تو اُتار چکا میری طرف سے اِلزام۔ '' بستی میں پہنچ کر حضرت خضر علیہ السلام نے بستی والوں سے کھانا طلب کیا کیونکہ اُن پر بھوک کا غلبہ تھا لیکن بستی والے گھٹیا اور کنجوس لوگ تھے اُنہوں نے کھانے کو کچھ نہ دیا، دریں جب وہ بستی والوں سے کھانا طلب کرنے کے لیے بحث کر رہے تھے تو حضرت خضر علیہ السلام نے ایک دیوار دیکھی جو گرنے کے قریب تھی حضرت خضر علیہ السلام نے اُسے سیدھا کردیا، حضرت موسٰی علیہ السلام نے آپ سے فرمایا : ( لَوْشِئْتَ لَا تَّخَذْتَ عَلَیْہِ اَجْرًا)(سُورة الکھف : ٧٧) ''اگرتو چاہتا تو لے لیتا اِس پرمزدُوری۔ '' اِس پر حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا : (ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَبَیْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِیْلِ مَالَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا)(سُورة الکھف : ٧٨) ''اَب جدائی ہے میرے اور تیرے درمیان، اَب بتائے دیتا ہوں تجھ کوحقیقت اِن باتوں کی جن پر تو صبرنہ کر سکا۔ ''