ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
وہ کشتی جس کا میں نے تختہ اُکھاڑ دیا تھا غریب لوگوں کی تھی جوسمندر میں کام کرتے تھے جس سے اُنہیں تھوڑا بہت رزق حاصل ہوجاتا تھا لیکن اُن پر ایک غاصب حکمران حکومت کرتا تھا اورجو رِزق اُنہیں حاصل ہوتا تھا اُسے چھین لیتا تھا اور اُس پر قبضہ کرکے اُنہیں بھوکا چھوڑ دیتا تھا، تو میں نے چاہا کہ کشتی کو عیب دار کردُوں، جب بادشاہ اُسے عیب دار ریکھے گا تو اُسے چھوڑ دے گا۔ یہ ایسا کام تھا جو بظاہر غلط تھا لیکن دَر حقیقت رحمت تھی اور میں نے یہ کام غلط نیت سے نہیں کیا بلکہ یہ اُن مساکین کے لیے اور اُن بے چاروں کی زندگی اور بقا کے لیے کیا تھا۔ اور جو لڑکا کھیل رہا تھا وہ گستاخ اور کینہ پرور تھا جبکہ اُس کے والدین نیک لوگ تھے ،ہمیں خطرہ تھا کہ وہ اپنے والدین کی زندگی اپنی سرکشی، بد سلوکی اورکفر کی وجہ سے اَجیرن بنادے گا چنانچہ میں نے اللہ کے حکم پر اُسے قتل کردیا تاکہ اُس کے نیک والدین اُس کی فتنہ پردازیوں سے محفوظ رہ سکیں اور اللہ سے اُمید رکھیں کہ وہ اُنہیں اِس سے بہتر اوردیندار اَولاد عطا فرمائے گا۔ اور رہا دیوار کا معاملہ تواللہ کی طرف سے مجھے معلوم ہوا کہ اِس کے نیچے دوچھوٹے یتیم بچوں کا خزانہ ہے، اُن بچوں کاباپ ایک نیک آدمی تھا، میںنے چاہا کہ دیوار کودرست کردُوں تاکہ جب وہ بڑے ہوجائیں تو اپنے لیے اپنا خزانہ نکال سکیں اور اُس سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ میں نے جو کچھ بھی کیا (کشتی کو توڑا، بچے کو قتل کیا اور دیوار کو درست کیا) اپنے علم اور رائے کے مطابق نہیں کیا بلکہ اللہ کی وحی اوراُس کے حکم کے مطابق کیا۔ ( ذٰلِکَ تَأْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا)(سُورة الکھف : ٨٢) ''یہ ہے حقیقت اِن چیزوںکی جن پرتو صبر نہ کرسکا۔ '' اِس طرح حق سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نبی حضرت موسٰی علیہ السلام پرثابت کیاکہ یہ بات آپ کو زیبا نہیں تھی کہ سائل نے جب آپ سے پوچھا کہ لوگوں میں سے بڑا عالم کون ہے توآپ نے فرمایا :'' میں'' یہ بات صحیح نہیں کیونکہ ہر علم والے کے اُوپر اُس سے زیادہ وہ علم والا ہوتا ہے یعنی'' اللہ ''اور وہ سب سے زیادہ باخبر سب سے زیادہ جاننے والا، بزرگی والا اور بلندو برتر ہے۔ (جاری ہے