ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
اِس طرح حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسٰی علیہ السلام پراپنی مصاحبت کے لیے اور تعلیم کے لیے شرط لگائی کہ وہ زیادہ سوالات اور پوچھ گچھ نہیں کریں گے، ہاں جب وہ چاہیں گے تو اَز خود اُس کی وضاحت کردیں گے۔ آپ دونوں حضرات سمندر کے کنارے پر کھڑے تھے، آپ کے قریب سے ایک کشتی گزری حضرت خضر علیہ السلام نے اُسے اِشارہ کیا وہ رُک گئی اور آپ اُس میں سوار ہوگئے کشتی نے سمندر میں تیرنا شروع کیا، حضرت خضر علیہ السلام نے اُس کا ایک تختہ اُکھاڑ دیا جس سے پانی کشتی میں داخل ہونا شروع ہوگیا اور کشتی ڈوبنے لگی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام خود پر قابو نہ رکھ سکے اور دہشت زدہ ہو کر پوچھنے لگے : ( اَخَرَقْتَھَا لِتُغْرِقَ اَھْلَھَا لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا اِمْرًا )(سُورة الکھف : ٧١) ''کیا تونے اِس کو پھاڑ ڈالا کہ ڈبوئے اِس کے لوگوں کو، اَلبتہ تونے کی ایک چیزبھاری۔ '' حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا : اے موسیٰ ! میں نے پہلے ہی آپ کو متنبہ کیاتھا، میں نہ کہتا تھا کہ آپ جو کچھ دیکھیں گے اُس پر ہر گز صبر نہیں کر سکیں گے اورآپ نے عہد بھی کیا تھا کہ آپ مجھ سے سوال نہیں کریں گے جب تک کہ میں اَز خود اُس کی حکمت نہ بتلادُوں تو آپ کے عہد کا کیا ہوا ؟ حضرت موسٰی علیہ السلام نے معذرت کرتے ہوئے فرمایا : ( لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ وَلاَ تُرْھِقْنِیْ مِنْ اَمْرِیْ عُسْرًا )(سُورة الکھف : ٧٣) ''مجھ کونہ پکڑ میری بھول پر اورمت ڈال مجھ پرمیرا کام مشکل۔ '' پھرحضرت خضر علیہ السلام حضرت موسٰی علیہ السلام اور آپ کے خادم کشتی سے اُترگئے اور دریا کے قریب بستی کی طرف چل پڑے، وہاں حضرت خضر علیہ السلام نے چھوٹے بچے کھیلتے اور اَٹھکیلیاں کرتے دیکھے ،آپ اُن میں سے ایک کے قریب پہنچے اور اُسے اپنی طرف کھینچ لیا پھر اپنا ہاتھ اُس کی