ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2015 |
اكستان |
|
اُسی لمحے ایک پرندے نے غوطہ لگایا اور اپنی چونچ پانی میں ڈبوئی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہا کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ چھوٹا سا پرندہ کیا کہہ رہا تھا ؟ حضرت موسٰی علیہ السلام نے پوچھا کیا کہہ رہاتھا ؟ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا وہ کہہ رہا تھا : اے خضر ! آپ کا علم اور موسٰی کا علم اللہ کے علم کے سامنے ایسا ہے جیسا کہ اِس سمندر کے سامنے میری چونچ میں موجودپانی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے خواہش ظاہر فرمائی کہ وہ اُن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اُن سے علم سیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ آپ نے بڑے اَدب اور عاجزی سے فرمایا : ( ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا )(سُورة الکھف : ٦٦) ''کہے تو تیرے ساتھ رہوں اِس بات پرکہ مجھ کو سکھلادے کچھ ،جو تجھ کو سکھلائی ہے بھلی راہ۔ '' حضرت خضر علیہ السلام نے اُن سے کہا : اے موسٰی ! علم ومعرفت سیکھنے کے لیے میری صحبت آپ کی قدرت سے زیادہ صبر کا مطالبہ کرتی ہے جو آپ نہیں کرسکتے، آپ کیونکر ایسے اُمور پر صبر کر سکیں گے جن کے لیے وسیع معلومات اور طویل تجربہ چاہیے اور آپ کسی غلطی کو دیکھ کر کیسے صبر کریں گے جب تک کہ میں آپ کواُس کی حکمت اور اَصل بات نہ بتلادُوں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا : ( سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ صَابِرًا وَّلاَ اَعْصِیْ لَکَ اَمْرًا)(سُورة الکھف : ٦٩) ''تو پائے گا، اگراللہ نے چاہا مجھ کوصبرکرنے والا اور نہ ٹالوں گا تیرا کوئی حکم۔ '' حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا : ( فَاِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلَا تَسْئَلْنِیْ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی اُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْرًا)(سُورة الکھف : ٧٠) ''پھر اگرمیرے ساتھ رہناہے تو مت پوچھیو مجھ سے کوئی چیز، جب تک میں شروع نہ کروں تیرے آگے اُس کا ذکر۔ ''