ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
حافظ موصوف کی بیعت کا تعلق محدث ِ کبیر حضرت الاستاذ شیخ الحدیث مولانا سیّد حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ (بانی جامعہ مدنیہ قدیم و جدید) سے تھا، یہ تعلق تقریبًا ١٩٦٤ء میں قائم ہوا تھا۔ حضرت جی سے بیعت کے بعد حافظ صاحب نے ذکر میں اِنہماک پیدا کیا۔ حضرت قاری صاحب فرماتے تھے کہ حافظ صاحب کا قلب ہر وقت جاری رہتا ہے۔ سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت اِن کے دل سے ''اللہ '' جاری ہے،صاحب ِ نسبت تھے حضرت جی سے بہت عقیدت رکھتے تھے حضرت جی اپنی بیماری سے پہلے کراچی تشریف لاتے تھے اور جامع مسجد سٹی اِسٹیشن میں قیام فرمایا کرتے تھے، حافظ موصوف حضرت جی کی مجالس کے حاضر باش تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت جی کراچی تشریف لائے ہوئے تھے یہ ١٩٦٢ء تھا، حضرت جی کی لاہور واپسی رمضان المبارک سے دو تین روز پہلے ہوئی ،کراچی کے سٹی اسٹیشن سے گاڑی میں سوار ہوئے حافظ صاحب بھی رُخصت کرنے والوں میں سے تھے اُنہوں نے حضرت قاری صاحب سے کہا : ''میں بھی کینٹ اسٹیشن تک کا ٹکٹ لے کر بیٹھ جاؤں ؟ وہاں سے واپس آجاؤں گا ۔'' حضرت قاری صاحب نے فرمایا : چلے جائیں۔ حافظ صاحب بھی سوار ہوگئے تین دِن کے بعد رمضان کا چاند نظر آگیا حافظ صاحب بہاری کے علاقہ کی ایک مسجد رحمانیہ میں سناتے تھے، پہلے دِن تراویح کے لیے نہیں پہنچے تو مسجد والے حضرت قاری صاحب کے پاس آئے کہ حافظ صاحب تو آئے نہیں آپ کسی اور حافظ کو بھیج دیں۔ حضرت قاری صاحب نے اُسی وقت جناب حافظ شہاب الدین صاحب قریشی زید مجدہ کو بھیج دیا، یہ بھی حضرت قاری صاحب کے شاگرد ہیں اور نئے نئے مدرسہ سے فارغ ہوگئے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حافظ اَخلاق اَحمد صاحب نے کینٹ سے لانڈھی تک کا ٹکٹ لے لیا کہ وہاں سے واپس آجاؤں گا، لانڈھی پہنچ کر حیدر آباد تک کا ٹکٹ لے لیا، حیدر آباد پہنچ کر سوچا کہ یہاں تک آگیا چلو لاہور تک ہی ساتھ چلا جاؤں ،وہاں سے لاہور کا ٹکٹ لے لیا اور پورے سفر میں حضرت جی کی معیت ہوگئی۔ جب لاہور سے واپس آئے تو حضرت قاری صاحب نے فرمایا : بندۂ خدا ! بتا تو دیتے