ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
حضرت نوح علیہ السلام اپنے پرور دگار کے فیصلہ پر راضی ہوگئے اور معذر ت کرتے ہوئے عرض کیا : ( رَبِّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَالَیْسَ لِیْ بِہ عِلْم وَّ اِن لَّا تَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ) (سورۂ ھود : ٤٧) ''اے رب ! میں پناہ لیتا ہوں تیری اِس سے کہ پوچھوں تجھ سے جو معلوم نہ ہو مجھ کو ، اور اگر تو نہ بخشے مجھ کو اور نہ رحم کرے تو میں ہوں گا نقصان والوں میں۔'' تب زمین و آسمان کو حکم ہوا۔ ( یَآ اَرْضُ ابْلَعِیْ مَآئَ کِ وَیٰسَمَآئُ اَقْلِعِیْ )(سُورۂ ھود : ٤٤) ''اے زمین نگل جا اپنا پانی اور اے آسمان تھم جا۔'' پھر پانی آہستہ آہستہ کم ہوگیا اور کشتی زمین پر آلگی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ( یٰنُوْحُ اھْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَکٰتٍ عَلَیْکَ وَعَلٰی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ )۔ ( ھود : ٤٨) ''اے نوح ! اُتر سلامتی کے ساتھ ہماری طرف سے اور برکتوں کے ساتھ تجھ پر اور اُن فرقوں پر جو تیرے ساتھ ہیں۔'' اِس طرح سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام اور اہلِ اِیمان کو نجات دی اور کافروں کو غرق کیا۔ (جاری ہے)