ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
حضرت نوح علیہ السلام مسلسل حکمت و بصیرت سے اُن کو دعوت دیتے رہے کہ وہ کفر سے رُجوع کر لیںبتوں کی پرستش کو چھوڑ دیں اور اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کریں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی دعوت کی صداقت پر دلائل دیے اور اُنہیں کائنات میں موجود ذاتِ باری تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کے دلائل کی طرف متوجہ کیا۔ آپ نے اُن سے اِرشاد فرمایا : ( مَالَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا۔ وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا۔ اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ طِبَاقًا۔ وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۔ وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا۔ثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیْھَا وَیُخْرِجُکُمْ اِخْرَاجًا۔ وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا۔ لِّتَسْلُکُوْا مِنْھَا سُبُلًا فِجَاجًا ) ( سُورۂ نوح : ١٣ تا ٠ ٢) ''کیا ہوا تم کو کیوں نہیں اُمید رکھتے اللہ سے بڑائی کی ؟ اور اُسی نے بنایا تم کو طرح طرح سے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کیسے بنائے اللہ نے سات آسمان تہہ بہ تہہ ، رکھا چاند کو اُن میں اُجالا اور رکھا سورج کو چراغ جلتا ہوا۔ اور اللہ نے اُگایا تم کو زمین سے جما کر پھر مکرر ڈالے گا تم کو اُس میں اور نکالے گا تم کو باہر اور اللہ نے بنادیا تمہارے لیے زمین کو بچھونا تاکہ چلو اِس میں کشادہ راستے پر۔ '' صرف عقلاء نے آپ کی دعوت کو قبول کیا ،باقی ساری قوم شرک و گمراہی پر جمی رہی، آپ کی تکذیب کرتی رہی اور کہتی رہی۔ ( مَا ھٰذَا اِلاَّ بَشَر مِّثْلُکُمْ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَاَنْزَلَ مَلٰئِکَةً مَّا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْ اٰبَا ئِنَا الْاَوَّلِیْنَ )(سُورة المومنون : ٢٤) ''یہ کیا ہے ؟ تم جیسا آدمی ہے، چاہتا ہے کہ بڑائی کرے تم پر اور اگر اللہ چاہتا تو اُتارتا فرشتے، ہم نے یہ نہیں سنا اپنے اَگلے باپ دادوں میں۔ ''