ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
''اے میرے اللہ! میں نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا ہے (اور تیری فر مانبرداری اور عبادت میں مجھ سے بڑا قصور ہوااور تیرے سوا کوئی گناہوں کا بخشنے والا نہیں، پس تو مجھے محض اپنے فضل سے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما تو بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔'' اِس دُعا میں اپنے گناہوں اور قصوروں کا اِقرار ہے اور اللہ تعالیٰ سے بخشش اور رحم کی اِلتجا ہے۔ در حقیقت بندہ کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ نماز جیسی عبادت کر کے بھی اپنے قصور کااِقرار کرے اور اپنے کو گناہگار اور قصور وار سمجھے اور اللہ کی بخشش اور اُس کی رحمت ہی کو اپنا سہارا سمجھے اور عبادت کی وجہ سے کوئی غرور اُس میں پیدا نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ہم سے کسی طرح بھی اَدا نہیں ہو سکتا۔ اِس سبق میں نماز کے متعلق جو کچھ بیان کرنا تھا وہ سب بیان کیا جا چکا۔ آخر میں ہم پھر کہتے ہیں کہ نماز وہ کیمیا اَثر عبادت ہے کہ اگر اِس کو دھیان کے ساتھ اور سمجھ سمجھ کے اور خشوع و خضوع سے اَدا کیا جائے (جیسا کہ اُو پر ہم نے بتلایا ہے) تو وہ اِنسان کو اَعمال و اَخلاق میں فرشتہ بنا سکتی ہے۔ بھائیو ! نماز کی قدرو قیمت کو سمجھو۔ رسول اللہ ۖ کو اُمت کے نماز پر قائم رہنے کی اِتنی فکر تھی کہ بالکل آخری وقت میں جبکہ حضور ۖ اِس دُنیا سے رُخصت ہو رہے تھے اور زبان سے کچھ فرمانا بھی مشکل تھا، اُس وقت بھی آپ ۖ نے اپنی اُمت کو نماز پر قائم رہنے اور نماز کو قائم رکھنے کی بڑی تاکید کے ساتھ وصیت فرمائی تھی۔ پس جو مسلمان آج نماز نہیں پڑھتے اور نماز کو قائم کرنے اور رواج دینے کی کوئی کوشش نہیں کرتے، ذرا اللہ کے لیے سوچیں کہ قیامت میں وہ کس طرح حضور ۖ کے سامنے جا سکیں گے اور کس طرح حضور ۖ سے آنکھ مِلا سکیں گے جبکہ وہ حضور ۖ کی آخری وصیت کو بھی پامال کر رہے ہیں۔ آؤ ہم سب حضرات اِبراہیم علیہ السلام کے الفاظ میں دُعا کریں : ( رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْo رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآئِ o رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo ) (باقی صفحہ ٤٦ )