بدلیل عدم قبول الشہادۃ۴؎ ولأن المنافع بینہم متصلۃ فصار بیعا من نفسہ من وجہ والإجارۃ والصرف علی ہذا الخلاف۔(۶۴۰) قال والوکیل
یہ کہ مکاتب کی کمائی میں آقا کا حق ہے اس لئے گویا کہ مکاتب کا مال آقا کا ہی مال ہوا۔ ]٢[ دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر مکاتب مال کتابت سے عاجز ہوجائے تو پلٹ کر غلام ہوجاتا ہے تو یہ بھی دلیل ہے کہ مکاتب غلام کے درجے میں ہے اس لئے اس سے بیع کرنا بھی جائز نہیں ہوگا ۔
وجہ : اس قول تابعی میں ہے کہ اجرت والے کی گواہی قبول نہیں تو اسی پر قیاس کرکے اپنے غلام اور مکاتب سے بدرجہ اولی خریدنا جائز نہیں ۔ عن الشعبی عن شریح قال اّرد شہادة ستة ،الخصم ،المریب، و دافع المغرم ، الشریک لشریکہ، و الاجیر لمن استأجرہ ۔( مصنف ابن ابی شیبة،٤٢٥ فی شھادة الولد لوالدہ ،ج رابع ، ص ٥٣٢،نمبر ٢٢٨٥١)
ترجمہ : ٣ امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ وکالت سے تہمت کی جگہ مستثنی ہے ، اور ان لوگوں سے خریدنے میں تہمت ہے ، کیونکہ ان لوگوں کی گواہی قبول نہیں کی جاتی ہے ۔ اس لئے ان لوگوں سے خریدنا جائز نہیں ہوگا ۔
تشریح : وکیل بنایا تو اسکاا مطلب یہ ہے جن لوگوں سے خریدنے میں خیانت کی تہمت ہے ان لوگوں سے نہ خریدی جائے اور ان لوگوں سے خریدنے میںتہمت ہے اسلئے ان لوگوں سے خریدنا جائز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی گواہی قبول نہیں کی جاتی ہے
ترجمہ : ٤ اور اس لئے بھی کہ ان لوگوں کا نفع ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہے تو گویا کہ من وجہ اپنے ہی سے بیع کی ، اور اجرت پر دینا اور بیعصرف کرنا بھی اسی اختلاف پر ہے ۔
تشریح : یہ امام ابو حنیفہ کی دوسری دلیل ہے کہ ان لوگوں کاآپس میں ایک دوسرے کا نفع ہے اس لئے گوا کہ اپنے ہی سے بیع کی اس لئے وکیل کے لئے ان لوگوں سے بیع کرنا جائز جائز نہیں ہوگا۔ آگے فرماتے ہیں کہ اجرت پر دینے کے لئے وکیل بنایا ، یا بیع صرف کرنے کے لئے وکیل بنایا تو یہ بھی اسی اختلاف پر ہے ، یعنی امام ابو حنیفہ کے ان لوگوں کو اجرت پر دینا جائز نہیں ہوگا اور صاحبین کے نزدیک جائز ہوگا۔
ترجمہ : (٦٤٠)بیچنے کے وکیل کے لئے جائز ہے کہ ان کو بیچے کم میں اور زیادہ میں امام ابو حنیفہ کے نزدیک اور صاحبین فرماتے ہیں کہ نہیں جائز ہے اس کا بیچنا اتنی کمی کے ساتھ جس کا لوگوں میں رواج نہ ہو۔ اور نہیں جائز ہے مگر درہم اور دینار کے ساتھ۔