شہادۃ رجل إلا شہادۃ رجلین۳؎ ولأن نقل شہادۃ الأصل من الحقوق فہما شہدا بحق ثم شہدا بحق آخر فتقبل۔۴؎ ولا تقبل شہادۃ واحد علی شہادۃ واحد لما روینا وہو حجۃ علی مالک رحمہ اللہ ولأنہ حق من الحقوق فلا بد من نصاب الشہادۃ۔(۵۶۲)وصفۃ الإشہاد أن یقول شاہد الأصل لشاہد الفرع اشہد علی شہادتي أني أشہد أن فلان بن فلان أقر عندي بکذا
لمیت الا رجلان ( مصنف عبد الرزاق، باب شھادة الرجل علی الرجل ، ج ثامن، ص٢٦٤، نمبر١٥٥٣٤) اس قول صحابی میں ہے کہ میت کے لئے دو گواہی چاہئے ۔
ترجمہ : ٣ اور اس لئے کہ اصل گواہ کی گواہی نقل کرنا حقوق میں سے ہے ، پس ان دونوں نے حق کی گواہی دی ، پھر دوسرے اصل گواہ کی گواہی دی تو قبول کرلی جائے گی ۔
تشریح : یہ حنفیہ کی دلیل عقلی ہے ۔ کہ اصل گواہ کی گواہی نقل کر نا کسی کے حق کی گواہی دینا ہے، پس پہلے ایک اصل کی گواہی کو قاضی کے سامنے نقل کیا ، اس کے بعد دوسرے اصل گواہ کی گواہی کو نقل کیا تو یہ جائز ہے اور قاضی اس کو قبول کرلے گا ۔
ترجمہ : ٤ اور نہیں قبول کی جائے ایک اصل کے لئے ایک ہی فرع ہو اس روایت کی وجہ سے جو پہلے گزری ، اور یہ روایت امام مالک پر حجت ہے ۔
تشریح : ایک اصل گواہ کے لئے ایک ہی فرع ہو ، اور دوسرے کے لئے بھی ایک ہی فرع ہو یہ جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ پہلے قول تابعی گزرا کہ ہر اصل کے لئے دو فرع ہوں ۔ حضرت امام مالک نے فرمایا تھا کہ ایک اصل کے لئے ایک فرع ہو تب بھی جائز ہے ۔ اوپر کا قول تابعی انکے خلاف حجت ہوگا ۔
ترجمہ : ٥ اور اس لئے کہ فرع کی گواہی دینا بھی حقوق العباد ہے اس لئے گواہی کا نصاب دو ہونا چاہئے ۔
تشریح : یہ دلیل عقلی ہے ، حدیث کی روایت کرنے میں ایک راوی کی روایت ایک ہی راوی نے کی تو یہ جائز ہے ، کیونکہ وہ حقوق العباد نہیں ہے ، لیکن اصل گواہ کی گواہی کو نقل کرنا حقوق العباد کو زندہ کرنا ہے اس لئے اس نقل کرنے میں نصاب شہادت پورا کرنا چاہئے جو دو گواہی ہے ۔اس لئے ہر اصل گواہ کے لئے دو گواہ چاہئے ۔
ترجمہ :(٥٦٢) گواہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اصل گواہ فرع گواہ سے کہے،میری گواہی پر گواہ بن جاؤ'میں گواہی دیتا ہوں کہ فلاں ابن فلاں نے میرے سامنے اتنے کا اقرار کیا ہے اور مجھے اپنی ذات پر گواہ بنایا ہے۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ فرع گواہ اصل کا نائب ہے اس لئے اس کی جانب سے گواہ بنانا ، اور وکیل بنانا ضروری ہے جیسا کہ پہلے گزرا