Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

227 - 515
 تعاین الحجۃ لأن قولہ یحتمل الغلط والخطأ والتدارک غیر ممکن وعلی ہذہ الروایۃ لا یقبل کتابہ۔واستحسن المشایخ ہذہ الروایۃ لفساد حال أکثر القضاۃ في زماننا إلا في کتاب القاضي للحاجۃ إلیہ۔ ۲؎ وجہ ظاہر الروایۃ أنہ أخبر عن أمر یملک إنشاء ہ فیقبل لخلوہ عن التہمۃ ولأن طاعۃ أولي الأمر واجبۃ وفي تصدیقہ طاعۃ۔۳؎  وقال الإمام أبو منصور رحمہ اللہ إن کان عدلا عالما یقبل قولہ لانعدام تہمۃ الخطإ والخیانۃ وإن کان عدلا جاہلا یستفسر فإن أحسن التفسیر وجب تصدیقہ وإلا فلا وإن کان جاہلا فاسقا أو عالما فاسقا لا یقبل إلا أن یعاین سبب الحکم 

خط تو اور قبول نہیں کیا جائے گا ، مشائخ نے اس روایت کو پسند کیا ہے کیونکہ اکثر قاضیوں کا حال ہمارے زمانے میں برا ہے
تشریح  : قاضی نے حدود کے بارے میں دوسرے قاضی کو خط لکھا تو یہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا ۔ البتہ چونکہ حدود کے علاوہ  دوسرے معاملے میں کتاب القاضی الی  القاضی کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے کتاب القاضی الی القاضی کو جائز قرار رکھا ہے ۔
ترجمہ  : ٢  ظاہرروایت کی وجہ یہ ہے کہ قاضی نے ایسے امر کی خبر دی جسکو وہ کر سکتا ہے اس لئے تہمت سے خالی ہونے کی وجہ سے قبول کی جا سکتی ہے ، اور اس لئے کہ حاکم کی اطاعت  واجب ہے ، اور اس کی تصدیق کرنے میں اطاعت ہے ۔ 
تشریح  : اوپر امام اعظم کی ظاہر روایت یہ گزری کہ دلائل دیکھے بغیر بھی قاضی کی بات مان کر حد لگا سکتا ہے ۔ اس کی دو دلیل دے رہے ہیں ۔ 
وجہ : (١) یہ قاضی ہے انکو فیصلہ کرنے کا حق ہے اور معزول ہونے سے پہلے ان پر تہمت بھی نہیں لگائی جا سکتی ہے کہ غلط فیصلہ کیا ہوگا اس لئے انکے حکم  پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔ اوپر حدیث میں حضور ۖ کے حکم پر رجم کیا ۔ (٢) دوسری دلیل یہ ہے کہ حاکم کی اطاعت کرنا واجب ہے اور اس کی تصدیق کرنے میں عبادت ہے اس لئے بھی انکی بات مانی جا سکتی ہے ، اس کے لئے آیت یہ ہے۔ یا ایھا الذین آمنوا اطیعو اللہ  و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم ۔ ( آیت ٥٩، سورت النساء ٤) اس آیت میں اولی الامر منکم ، یعنی قاضی کی بات مانو ۔ 
ترجمہ٣  امام ابو منصور  نے فرمایا اگر قاضی عادل ہے ، عالم ہے تو اس کے فیصلے پر عمل کیا جائے گا اس لئے کہ اس میں غلطی کرنے اور خیانت کی تہمت نہیں ہے ، اور اگر عادل ہو لیکن جاہل ہو تو تفسیر معلوم کی جائے گی ، اگر اچھی وجہ بتا دی تو اس کی تصدیق واجب ہے ورنہ تو عمل نہیں کیا جائے گا ، اور اگر جاہل اور فاسق ہے ، یا عالم اور فاسق ہے تو اس کی بات قبول نہیں کی جائے گی ، جب تک کہ فیصلے کا سبب نہ معلوم ہوجائے ، اسلئے کہ جاہل ہونے کی وجہ سے غلطی کرنے کا احتمال ہے اور فاسق ہونے 

Flag Counter