القاضي إلی القاضي في الحدود والقصاص۱؎ لأن فیہ شبہۃ البدلیۃ فصار کالشہادۃ علی الشہادۃ ولأن مبناہما علی الإسقاط وفي قبولہ سعي في إثباتہما۔
وجہ : (١) حدود اور قصاص کے بارے میں یہ ہے کہ حتی الامکان ان کو ساقط کرو۔ اور کتاب القاضی الی القاضی سے اور مضبوط ہوگا اس لئے کتاب القاضی الی القاضی حدود اور قصاص میں مقبول نہیں ہے۔ (٢) اس کے لئے حدیث یہ ہے۔عن عائشة قالت قال رسول اللہ ۖ ادرء وا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان کان لہ مخرج فخلوا سبیلہ فان الامام ان یخطی فی العفو خیر من ان یخطی فی العقوبة (ترمذی شریف، باب ماجاء فی درء الحدود، ص٣٤٥، نمبر ١٤٢٤ دار قطنی ، کتاب الحدود والدیات، ج ثالث، ص ٦٨ ، نمبر ٣٠٧٥)(٣) دوسری بات یہ ہے کہ حدود اور قصاص شبہات سے ساقط ہو جاتے ہیں اور کتاب القاضی الی القاضی میں شبہ ہوتا ہے اس لئے بھی یہ حدود اور قصاص میں جائز نہیں ہوگا (٤) اس قول تابعی میں ہے ۔ وقال بعض الناس کتاب الحاکم جائز الا فی الحدود ۔ (بخاری شریف، باب الشہادة علی الخط المختوم الخ، ص١٢٣٢، نمبر ٧١٦٢) اس اثر سے بھی معلوم ہوا کہ حدود میں کتاب القاضی الی القاضی جائز نہیں ہے
ترجمہ : ١ اس لئے کہ کتاب القاضی الی القاضی میں بدلیت کا شبہ ہے تو گواہی پر گواہی کی طرح ہوگئی ، اس لئے جائز نہیں ہے ، اور اس لئے بھی کہ حدود کا مدار ساقط کرنے پر ہے اور کتاب القاضی کو قبول کرنے میں اس کو نافذ کرنے کی کوشش کرنا ہے
تشریح : یہ دو دلیل عقلی ہیں ]١[… ایک یہ ہے کہ دوسرا قاضی جب فیصلہ کرنے جائے گا تو اس میں بدل ہونے کا شبہ ہوگیا ، اور شبہ سے حدود، اور قصاص ساقط ہوجاتے ہیں اس لئے یہ ساقط ہو جائیں گے ۔ اور ]٢[ …دوسری دلیل یہ ہے کہ اوپر حدیث میں آیا کہ جہاں تک ہو سکے حدودو اور قصاص کو ساقط کرو اور کتاب القاضی سے یہ اور مضبوط ہوگا اس لئے حدود اور قصاص میں کتاب القاضی الی القاضی جائز نہیں ہے ۔