Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

136 - 515
رحمہ اللہ ف غیر موضع التہمة لأن الشاہد قد یحصر لمہابة المجلس فکان تلقینہ حیاء للحق٣  بمنزلة الشخاص والتکفیل.

ترجمہ  : ٢  جہاں غلط مدد کرنے کی تہمت نہ ہو تو وہاں امام ابو یوسف  نے گواہ کو تلقین کرنے کو اچھا سمجھا ہے ، کیونکہ گواہ کبھی عدالت کی ہیبت سے رک جاتا ہے  تواس کو تلقین کرنا حق کو زندہ کرنا ہے۔
تشریح  : جہاں کسی کا حق نہیں مارا جاتا ہو بلکہ تلقین کرنے سے اس کا حق زندہ ہوتا ہو تو وہاں گواہ کو تلقین کرنا حضرت امام ابو یوسف  کے نزدیک مستحسن ہے ۔ 
وجہ  :  اس حدیث میں حضور نے خود مجرم کو تلقین کی ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ نے چوری نہیں کی ہے پھر بھی چوری سمجھ کر اس کا اقرار کر رہے ہیں۔  عن ابی امیة المخزومی ان النبی  ۖ اتی بلص قد اعترف اعترافا و لم یوجد معہ متاع فقال رسول الللہ  ۖ ما اخالک سرقت ؟ قال بلی فأعاد علیہ مرتین او ثلاثا فامر بہ فقطع ۔ ( ابو داود شریف ، باب فی التلقین فی الحد ۔ ( ابوداود شریف ، باب التلقین فی الحد ، ص ٦١٦، نمبر ٤٣٨٠) اس حدیث میں حضور ۖ نے تلقین کی ہے مگر خصم کو مجبور کرنے کے لئے نہیں بلکہ تحقیق حال کے لئے کی ہے ۔
ترجمہ  : ٣  جیسے کسی فریق کو بلانے کو بھیجنا ، یا کسی فریق سے کفیل لینا ۔ 
تشریح  :  مدعی ، یا مدعی علیہ کو بلانے کے لئے بھیجنا  تا کہ جلد فیصلہ کیا جا سکے ،یہ مستحسن ہے ، اسی طرح دونوں میں سے ایک سے کفیل لینا ، مستحسن ہے ، اسی طرح حق زندہ کرنے کے لئے گواہ کی صحیح تلقین کرنا بھی حضرت امام ابو یوسف  کے نزدیک مستحسن ہے ، ہاں ظلم کرنے کے لئے ایسا کرنا بالکل جائز نہیں ہے۔

Flag Counter