١ الاعلیٰ قول زفر فان لہا جمیع ما اوصی وما اقرّبہ لان المیراث لما بطل بسوالہا زال المانع من صحة الاقرار والوصےة ٢ وجہ قولہما فی المسألة الاولیٰ انہما لما تصادقا علی الطلاق وانقضائِ العدة صارت اجنبےةً عنہ حتی جازلہ ان یتزوج اختَہا فانعدمت التہمة الا تریٰ انہ تقبل شہادتُہ لما ویجوز وضع الزکوٰة فیھا ٣ بخلاف المسألة الثانےة لان العدة باقےة وھی سبب التہمة والحکم یدار علی دلیل التھمة ولہذا ایدار علی النکاح والقرابةِ ولا عدةَ فی المسألة الاولیٰ
ترجمہ: ١ مگر امام زفر کے قول پر اس لئے کہ عورت کے لئے وہ تمام ہے جو وصیت کی گئی ، یا جس کا اقرار کیا ، اس لئے کہ میراث جب اس کے سوال سے باطل ہو گئی تو اقرار اور وصیت کے صحیح ہو نے سے جو مانع تھا وہ زائل ہو گیا ۔
تشریح: امام زفر کی رائے ہے کہ چاہے عورت کے کہنے سے تین طلاقیں دی ہوں پھر بھی اس کو پوری وصیت ، یا پورا اقرار ملے گا ، کیونکہ بیوی کے لئے اقرار یا وصیت نہیں کر سکتے ، لیکن جب یہ اجنبیہ ہو گئی تو اقرار اور وصیت کا مانع ختم ہو گیا ، اس لئے جتنی وصیت کی ہے یا اقرار کیا ہے سب ملے گا چاہے وہ میراث سے کم ہو یا زیادہ ہو ۔
ترجمہ: ٢ پہلے مسئلے میں صاحبین کی دلیل یہ ہے کہ جب دونوں نے طلاق ہو نے پر اور عدت گزرنے پر تصدیق کر لی تو اب شوہر سے اجنبیہ ہو گئی ، یہی وجہ ہے کہ شوہر کے لئے عورت کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے ۔اس لئے تہمت ختم ہو گئی ، کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ مرد کی شہادت اس عورت کے لئے قبول کی جائے گی، اور زکوة کو اس عورت کو دینا جائز ہو گا ۔
تشریح : پہلے مسئلے یعنی دو نوں نے عدت گزرنے پر تصدیق کی ہو تو صاحبین کی رائے تھی کی شوہر کا قرار اور اسکی وصیت جائز ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ جب عورت نے تصدیق کی کہ عدت گزر گئی تو وہ اجنبیہ بن گئی اس لئے اس کے لئے اقرار کر نا یا وصیت کر نا جائز ہے ، آگے اجنبیہ بننے کی تین دلیل پیش کر رہے ہیں ۔]١[ عورت اجنبیہ بن گئی ہے اسی لئے اب اس کی بہن سے نکاح کر نا جائز ہو گیا ہے ۔]٢[ بیوی رہتی تو شوہر اس کے لئے گواہی نہیں دے سکتا تھا ، لیکن اب گواہی دے سکتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ وہ اجنبیہ بن چکی ہے ۔ ]٣[ بیوی ہوتی تو اس کو اپنی زکوة نہیں دے سکتا تھا ، لیکن اب زکوة دے سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اجنبیہ بن چکی ہے ، اور جب اجنبیہ بن چکی تو اب اس کے لئے دین کا اقرار کر نا بھی جائز ہے ، اور وصیت کرنا بھی جائز ہے ۔
ترجمہ: ٣ بخلاف دوسرے مسئلے کے اس لئے کہ عدت باقی ہے اور یہ تہمت کا سبب ہے اور حکم کا مدار تہمت کی دلیل پر ہے، اسی وجہ سے نکاح اور قرابت پر حکم کا مدار ہے ، اور پہلے مسئلے میں عدت نہیں ہے ۔
تشریح: صاحبین کی دلیل ۔دوسرے مسئلے میں عورت کے حکم سے طلاق ہوئی ہے اور ابھی عدت بھی باقی ہے اس لئے کسی نہ کسی درجے میں بیوی موجود ہے اس لئے یہ تہمت کی دلیل ہے کہ بیوی کو طلاق دیکر زیادہ وصیت کرنا چاہتا ہے اس لئے اس کے لئے