اواوصی لہا بوصےةٍ فلہا الاقلّ من ذٰلک ومن المیراث عند ابی حنیفة وقال ابو یوسف ومحمد یجوز اقرارہ ووصیتہ)
(١٨٩٩) وان طلقہا ثلثا فی مرضہ بامرہا ثم اقرّ لہا بدین او اوصیٰ لہا بوصےة فلہا الاقل من ذٰلک ومن المیراث فی قولہم جمیعاً)
میراث اور وصیت میں سے جو کم ہے وہ ملے گا امام ابو حنیفہ کے نزدیک ، اور صاحبین نے فر مایا کہ اس کا اقرار اور وصیت کرنا درست ہے ۔
تشریح: شوہر مر ض الموت میں تھا اور عورت سے کہا کہ میں تم کو صحت کے زمانے میں طلاق دی تھی اور اب تک اس کی عدت بھی گزر چکی ہے ، عورت نے اس کی تصدیق کی بعد میں شوہر نے عورت کے لئے وصیت کی ، یا قرض کا اقرار کیا تو دیکھا جائے گا کہ وصیت کی رقم کم ہے یا وراثت جو ملے گی وہ کم ہے ، ان دونوں میں سے جوکم ہو وہ ملے گا ، مثلا وصیت کی رقم پانچ ہزار درہم ہے اور میراث کی رقم چھ ہزار ہے تو وصیت کی رقم ملے گی ۔
وجہ: اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عورت نے بھی تصدیق کی تو یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں نے مشورہ کر کے یہ طلاق کا اور عدت گزرنے کا ڈھونگ رچایا ہو تاکہ میراث سے زیادہ وصیت کر سکے یا دین کا اقرار کر سکے، اور دوسرے وارثین کا نقصان ہو جائے ، اس لئے میاں بیوی دو نوں متہم ہیں اس لئے میراث اور وصیت میں سے ، یا میراث اور دین میں سے جو کم ہو وہ دلوایا جائے تاکہ ان کا مقصد پورا نہ ہواور وارثین کو نقصان نہ ہو ۔
اور صاحبین فر ماتے ہیں کہ جب طلاق واقع ہونے اور عدت گزرنے کی تصدیق ہو گئی تو عورت بالکل اجنبیہ ہو گئی ، یہی وجہ ہے کہ]١[ اب اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے ،]٢[شوہر اس عورت کے حق میں گواہی دینا چاہے تو قبول کی جائے گی ،]٣[ اس عورت کو زکوة دینا چاہے تو دے سکتا ہے ، کیونکہ یہ اب اجنبیہ ہو گئی ، اور جب اجنبیہ ہو گئی تو اس کے لئے میراث سے بھی زیادہ وصیت کا اقرار کر سکتا ہے ، یا دین کا اقرار کر سکتا ہے اس لئے شوہر نے جو اقرار کیا وہی دلوایا جائے گا ۔
ترجمہ: (١٨٩٩) اور اگر عورت کے حکم سے مرض الموت تین طلاقیں دیں ]اور عدت باقی تھی[ کہ عورت کے لئے دین کا اقرار کیا یا اس کے لئے وصیت کی تو میراث اور وصیت میں سے جو کم ہووہ اس کے لئے ہو گا سب کے قول میں ۔
تشریح: جب عورت کے حکم سے تین طلاقیں دیں اور ابھی وہ عدت میں ہے کہ اس کے لئے وصیت کی یا اس کے لئے قرض کا اقرار کیا تو غالب گمان ہے کہ وصیت یا قرض زیادہ دلوانے کے لئے اس کے حکم سے طلاق دی گئی ہے اس لئے سب کے نزدیک یہ ہے کہ دو نوں میں سے جو کم رقم ہو وہ عورت کو دلوائی جائے گی اور ان کے ارادے کو رد کر دیا جائے گا ، تاکہ باقی ورثہ کا نقصان نہ ہو ۔