(باب العنین وغیرہ )
(٢٠٥٠) واذکان الزوج عنیناً اجلہ الحاکم سنة فان وصل الیہا فبہا والافرق بینہما اذاطلبت المرأة ذلک ) ١ ہکذاروی عن عمروعلی وابن مسعود
(باب العنین و غیرہ )
ضروری نوٹ :اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ کس کس سبب سے عورت فسخ نکاح کروانے کی حقدار ہے ۔ اس کی پوری دلیل آگے آرہی ہے ۔
عنین کی دلیل یہ حدیث ہے۔(١) عن عائشة قالت جاء ت امرأة رفاعة الی النبی ۖ فقالت کنت عند رفاعة فطلقنی فبت طلاقی فتزوجت عبد الرحمن بن الزبیر وانما معہ مثل ھدبة الثوب فتبسم رسول اللہ ۖ فقال أتریدین أن ترجعی الی رفاعة ؟لا حتی تذوقی عسیلتہ و یذوق عسیلتک ۔ (مسلم شریف ، باب لا تحل المطلقة ثلاثا لمطلقھا الخ، ص ٤٦٣ ،نمبر ٣٥٢٦١٤٣٣ ) اس حدیث میں ہے کہ جماع کی طاقت نہیں تھی تو آپ ۖ نے تفریق کروائی۔(٢) اس اثر میں بھی ہے ۔ عن عمر بن الخطاب انہ قال فی العنین یوجل سنة فان قدر علیھا والا فرق بینھما ولھا المہر وعلیھا العدة ۔ (سنن للبیہقی ، باب اجل العنین ج سابع، ص٣٦٨،نمبر ١٤٢٨٩ مصنف عبد الرزاق ، باب اجل العنین، ج سادس ،ص٢٠٠ ،نمبر١٠٧٦٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ حاکم کے پاس معاملہ لے جانے کے وقت سے ایک سال کی مہلت دی جائے گی۔اس مدت میں صحبت کے قابل ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ عورت کے مطالبے پر تفریق کردی جائے گی۔پھر عورت کو مہر بھی ملے گا اور اس پر عدت بھی لازم ہوگی ۔کیونکہ خلوت صحیحہ ہو چکی ہے ۔
ترجمہ: (٢٠٥٠) اگر شوہر عنین ہو تو حاکم اس کو مہلت دے گا ایک سال۔پس اگر صحبت کرلے اس مدت میں تو عورت کو اختیار نہیں ہوگا ورنہ دونوں میں تفریق کردے اگر عورت اس کا مطالبہ کرے۔
ترجمہ: ١ اسی طرح حضرت عمر ، اور حضرت علی اور حضرت ابن مسعود سے منقول ہے ۔
تشریح : شوہر نامرد ہو ،بیوی سے صحبت نہ کر سکتا ہو تو حاکم اس کو ایک سال تک مہلت دے گا تاکہ اس کا علاج کرائے۔پس اگر ایک سال میں صحبت کے قابل ہو گیا تو ٹھیک ہے۔اور اگر صحبت کے قابل نہ ہوا اور عورت نے علیحدگی کا مطالبہ کیا تو حاکم تفریق کر دیںگے ۔حضرت عمر ، حضرت علی ، اور حضرت ابن مسعود سے ایسا ہی منقول ہے ۔
وجہ : (١) ایک سال میں تینوں موسم ہیں اس لئے آسانی سے علاج کرا سکتا ہے اس لئے ایک سال کی مہلت دی جائے گی(٢) اس حدیث میں اس کا ثبوت ہے ۔ عن عائشة قالت جاء ت امرأة رفاعة الی النبی ۖ فقالت ... وانما معہ مثل