( فصل فی الاستثناء )
(١٨٩٢) وذاقال لامرأتہ انتِ طالق ان شاء اللہ تعالیٰ متصلاً لم یقع الطلاق)
بعد تھوڑی دیر ٹھہرا رہا تو اس سے ٹھہرنے سے رجعت ہو جائے گی ، امام ابو یوسف کے یہاں تو اسلئے کہ ٹھہرنا دوبارہ جماع ہوا ، اور جماع سے رجعت ہو جاتی ہے اس لئے رجعت ہو جائے گی ، اور امام محمد کے یہاں ٹھہرنے سے دوبارہ جماع تو نہیں ہوا ، لیکن عورت کو شہوت کے ساتھ چھونا پا یا گیا اس لئے اس چھونے کی وجہ سے رجعت ہو جائے گی۔ خلافا لمحمد کا یہی مطلب ہے ۔
ترجمہ: ٥ اگر عضو باہر نکالا پھر داخل کیا تو بالاجماع رجعت کرنے والا ہوا جماع کے پائے جانے کی وجہ سے ۔
تشریح: اگر عضو تناسل کو باہر نکالا ، اور اس کے بعد پھر داخل کیا تو سب کے نزدیک جماع پایا گیا اسلئے سب کے نزدیک رجعت ہو جائے گی ۔
( طلاق میں استثناء کا بیان)
ضروری نوٹ : ایک بات کہی ہو پھر اس کو اللہ کے چاہنے پر موقوف کر دے ، یا کچھ عدد بیان کیا ہو اس میں سے الا کے ذریعہ کچھ کم کردے اس کو استثناء کہتے ہیں ، استثناء کے بعد جو باقی رہتا ہے حکم اسی پر لگتا ہے ، (١) اشارے کے لئے یہ آیت ہے و لا تقولن لشأی انی فاعل ذالک غدا الا ان یشاء اللہ (آیت ٢٣، ٢٤،سورة الکھف١٨) اس آیت میں ہے کہ اپنی بات کو اللہ کے چاہنے پر معلق کر دیا جائے ۔(٢) اس حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔ عن ابی ھریرة ان رسول اللہ قال ان للہ تسعة وتسعین اسما مائة الا واحدا من احصاھا دخل الجنة ۔ (بخاری شریف ، باب ان للہ مائة اسم الا واحدة ،ص ١٠٩٩ ،نمبر ٧٣٩٢،کتاب التوحید مسلم شریف ، باب فی اسماء اللہ تعالی وفضل من احصاھا ،ص ٣٤٢ ،نمبر ٦٨٠٩٢٦٧٧)اس حدیث میں سو میں سے ایک کو استثناء کیا جس کی بنا پر نناوے نام باقی رہے۔
ترجمہ: (١٨٩٢) اگر اپنی عورت سے کہا تجھے طلاق ہے ان شاء اللہ متصلا تو اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔