(باب الخلع)
(١٩٥٧) واذا تشاق الزوجان و خافا ان لایقیما حدود اللہ فلاباس بان تفتدی نفسہا منہ بمال یخلعہا ]بہ لقولہ تعالی فلاجناح علیہا فیما افتدت بہ[ فاذا فعل ذلک وقع بالخلع تطلیقة بائنة و لزمہا المال) ١ لقولہ علیہ السلام الخلع تطلیقة بائنة
( باب الخلع )
ضروری نوٹ : خلع کے معنی نکالنا ہیں،زوجیت کو مال کے بدلے میں نکال دینے کو خلع کہتے ہیں۔خلع میں بیوی کی جانب سے مال ہوتا ہے اور شوہر اس کے بدلے طلاق دیتا ہے اس کو خلع کہتے ہیں۔(١) اس کا ثبوت اس آیت میں ہے۔۔ و لا یحل لکم ان تأخذوا مما ء ا تیتموھن شیئاالا أن یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ( آیت ٢٢٩، سورة البقرة ٢) (٢)اور اس حدیث میں بھی اس کا ثبوت ہے۔عن ابن عباس انہ قال جا ئت امرأة ثابت بن قیس الی رسول اللہ انی لا اعتب علی ثابت فی دین ولا خلق ولکنی لا ا طیقہ فقال رسول اللہ ا فترّ دین علیہ حدیقتہ ؟ قالت نعم (بخاری شریف ، باب الخلع وکیف الطلاق فیہ، ص٩٤٣، نمبر ٥٢٧٥ابو داؤد شریف ، باب فی الخلع، ص ٣٠٩ ،نمبر ٢٢٢٨) اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی شوہر کے درمیان اختلاف ہو جائے تو خلع کر سکتا ہے۔
ترجمہ: (١٩٥٧) اگر میاں بیوی میں ناچاکی ہو جائے اور دونوں خوف کرے کہ اللہ کی حدود کو قائم نہ کرسکے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ عورت اپنی جان کے بدلے کچھ مال دے کر خلع کرے،]اللہ تعالی کا قول : فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ کی وجہ سے[پس جب انہوں نے یہ کر لیا تو خلع سے طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی اور عورت کو مال لازم ہوگا۔
ترجمہ: ١ حضور علیہ السلا م کے قول : الخلع تطلیقة بائنہ، کی وجہ سے۔
تشریح: میاں بیوی میں اختلاف ہوجائے اور اس بات کا خوف ہو کہ اللہ کی حدود کو قائم نہ کر سکے تو عورت کے لئے جائز ہے کہ شوہر کو کچھ مال دے کر طلاق لے لے اور اپنی جان چھڑا لے۔خلع کرکے شوہر مال لے تو خلع کرتے ہی طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی۔الگ سے طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔
وجہ : (١) خلع جائز ہونے کی دلیل اوپر کی آیت اور حدیث ہے۔اور خلع ہی سے طلاق واقع ہو جائے گی اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔ عن ابن عباس ان النبی ۖ جعل الخلع تطلیقة بائنة ۔(سنن للبیہقی ، باب الخلع ھل ھو فسخ او طلاق ،ج سابع، ص ١٤٨٦٥٥١٨ دار قطنی ،کتاب الطلاق ، ج رابع، ص ٣١، نمبر ٣٩٨٠ مصنف ابن ابی شیبة ،١٠٤ ماقالوا فی الرجل اذا خلع امرأتہ کم