(فصل فی من یجب النفقة و من لا یجب )
(٢١٩٣) وعلی الرجل أن ینفق علی أبویہ وأجدادہ وجداتہ ذا کانوا فقراء ون خالفوہ ف دینہ)
١ أما الأبوان فلقولہ تعالی وصاحبہما ف الدنیا معروفاً نزلت الآیة ف الأبوین الکافرین ولیس من المعروف أن یعیش ف نعم اللّٰہ تعالی ویترکہما یموتان جوعاً
(فصل والدین کا نفقہ )
ترجمہ: (٢١٩٣) اور آدمی پر لازم ہے کہ وہ خرچ کرے والدین پر اور دادا پر اور دادیوں پر جبکہ وہ فقیر ہوں،اگرچہ وہ اس کے دین کے مخالف ہوں۔
ترجمہ: ١ بہر حال والدین کا نفقہ تو اللہ تعالی کا قول ہے ۔ وصاحبھما فی الدنیا معروفا۔ (آیت ١٥ ،سورۂ لقمان ٣١) یہ آیت کافر والدین کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، اور معروف میں سے یہ نہیں ہے کہ خود اللہ کی نعمت میں عیش کرے اور ماں باپ کو بھوک سے مرنے چھوڑ دے ۔
تشریح والدین کے پاس روزانہ کے کھانے کا نہیں ہے اور لڑکے کے پاس ہے تو لڑکے پر والدین کا نفقہ لازم ہے۔چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ہو۔اسی طرح دادا،دادی اور نانا نانی کا حکم ہے۔ کیونکہ آیت میں ہے کہ چاہے والدین کافر کیوں نہ ہوں انکے ساتھ معروف یعنی احسان کا معاملہ کرنا چاہئے ، پس یہ اچھی بات نہیں ہے کہ خود اللہ کی نعمت میں عیش کرے اور والدین بھوک سے مر رہے ہوں اس لئے ان کا نفقہ بھی لڑکے پر واجب ہو گا ۔
وجہ : (١) آیت میں ہے۔و ان جاھداک علی ٰ أن تشرک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا۔ (آیت ١٥ ،سورۂ لقمان ٣١) اس آیت میں ہے کہ والدین کافر ہوں تب بھی ان کے ساتھ دنیا میں اچھا معاملہ کرو، اس لئے والدین کافر بھی ہوں تو ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرواور نفقہ دو (٢) دوسری آیت میں ہے۔ وعلی الوارث مثل ذلک (آیت ٢٣٣ سورة البقرة٢) کہ والدین کی طرح وارث پر بھی نفقہ ہے۔اور بیٹا اور پوتا وارث ہیں اس لئے ان پر بھی والدین اور دادا دادی اور نانا نانی کا نفقہ ہوگا (٣) حدیث میں ہے۔ حدثنا کلیب بن منفعة عن جدہ انہ اتی النبی ۖ فقال یا رسول اللہ من ابر ؟ قال امک و اباک و اختک واخاک ومولاک الذی یلی ذلک حقا واجبا ورحما موصولة ۔ (ابو داؤد شریف،باب فی بر الوالدین ،ص ٣٥٢ ،نمبر ٥١٤٠)(٤) نسائی شریف میں ہے ۔عن طارق المحاربی قال قدمنا المدینة فاذا رسول اللہ قائم علی المنبر یخطب الناس وھو یقول ید المعطی العلیا وابداء بمن تعول امک واباک واختک واخاک ثم ادناک ادناک۔ (نسائی شریف ، باب ایتھما الید العلیا ؟ ص