(فصل فیما تحل بہ المطلقة)
(١٩٢٦) واذا کان الطلاق بائنا دون الثلث فلہ ان یتزوجہا فی العدة وبعد انقضائہا) ١ ولنا حلّ المحلّےة باق لان زوالہ معلق بالطلقة الثالثة فینعدم قبلہ ٢ ومنع الغیر فی العدة لاشتباہ النسب ولا اشتباہ فی اطلاقہ
(فصل فیما تحل بہ المطلقة )
ضروری نوٹ : طلاق شدہ عورت کو کس طرح حلال کیا جا سکتا ہے اس کا بیان ہے ]١[ ایک طلاق رجعی ہویا دو طلاق رجعی ہو تو اس سے رجعت کرکے حلال کی جا سکتی ہے ]٢[ ایک طلاق بائن ہو یا دو طلاق بائن ہو تو اس سے رجعت نہیں کر سکتا ، البتہ اس کی رضامندی سے عدت کے اندر یا عدت کے بعد نکاح کر سکتا ہے اس میں حلالہ کی ضرورت نہیں ہے ۔]٣[ آزاد عورت کو تین طلاق واقع ہو ئی ہو ، یا باندی کو دو طلاق واقع ہوئی ہو تو اس کو طلاق مغلظہ کہتے ہیں ، اس میں حلالہ کے بغیر نکاح کر نا حلال نہیں ہے ۔
ترجمہ: (١٩٢٦) اور اگر طلاق بائن ہو تین سے کم تو شوہر کے لئے جائز ہے کہ بیوی سے شادی کرے عدت میں اور عدت ختم ہونے کے بعد۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ محل کا حلال ہو نا باقی ہے اس لئے کہ حلت کا زوال تیسری طلاق پر معلق ہے ، اس لئے اس سے پہلے زوال منعدم ہو گا ۔
تشریح : شوہر نے بیوی کو طلاق بائنہ دی لیکن تین طلاقوں سے کم دی ۔ایک طلاق بائنہ دی یا دو طلاق بائنہ دی تو جب عدت گزار رہی ہے اس وقت بھی شوہر اس سے شادی کر سکتا ہے اور عدت ختم ہو جائے تب بھی شادی کر سکتا ہے، چونکہ یہ طلاق مغلظہ نہیں ہے اس لئے اس میں حلالہ کی ضرورت نہیں ہے ۔
وجہ: (١) تین طلاق یعنی طلاق مغلظہ دی ہو تو دوسرے شوہر سے شادی کئے بغیر حلال نہیں ہوگی۔لیکن اس سے کم دی ہو تو یہ شوہر کسی وقت بھی اس سے شادی کر سکتا ہے۔چاہے عدت کے وقت ہو چاہے عدت کے بعد ہو۔ کیونکہ اگر عورت کے پیٹ میں بچہ ہوگا تو اسی شوہر کا بچہ ہے اس لئے نسل کے اشتباہ کا مسئلہ بھی نہیں رہے گا۔اس لئے عدت میں بھی شادی کر سکتا ہے (٢) آیت میں ہے۔الطلاق مرتان فامسان بمعروف او تسریح باحسان (آیت ٢٢٩ سورة البقرة٢) اس آیت سے معلوم ہوا کہ دو طلاق کے بعد معروف کے ساتھ روک سکتا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ دو طلاق بائنہ دی ہو تو عدت میں بیوی سے نئی شادی کر کے روک سکتا ہے۔
ترجمہ: ٢ اور عدت میں غیر کو نکاح سے روکنا نسب کے اشتباہ کی وجہ سے ہے، اور شوہر سے نکاح جائز قرار دینے میں کوئی اشتباہ