(فصل فی نفقة الاولاد الصغار)
(٢١٨٤) ونفقة الأولاد الصغار علی الأب لا یشارکہ فیہا أحد کما لا یشارکہ ف نفقة الزوجة)
١ لقولہ تعالی: وعلی المولود لہ رزقہن والمولود لہ ہو الأب (٢١٨٥) وان کان الصغیر رضیعا فلیس علی أمہ أن ترضعہ )
(فصل چھوٹے بچوں کا نفقہ )
ترجمہ: (٢١٨٤) چھوٹی اولاد کا نفقہ باپ پر ہے اس میں کوئی شریک نہ ہو جیسے کہ شوہر شریک نہیں کرتا بیوی کے نفقے میں کسی کو۔
ترجمہ: ١ اور اللہ تعالی کے اس قول کی وجہ سے ۔وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف ۔ (آیت ٢٣٣، سورة البقرة٢) اور مولود لہ وہ باپ ہے ۔
تشریح: جیسے بیوی کے نفقے میں اولاد کو شریک نہیں کرتا بلکہ بیوی کو مستقل نفقہ دیتا ہے اسی طرح چھوٹی اولاد کے نفقے میں کسی کو شریک نہیں کرے گا بلکہ جتنا اس کا نفقہ ہوتا ہے وہ اولاد کو مستقل طور پر دے گا۔
وجہ: (١) آیت میں ہے کہ اولاد کا نفقہ باپ پر واجب ہے۔و الوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف لا تکلف نفس الا وسعھا لا تضار والدة بولدھا و لا مولود لہ بولدہ ،و علی الوارث مثل ذالک فان اراد فصالا عن تراض منھما و تشاور فلا جناح علیھما و ان اردتم ان تسترضعوا اولادکم فلا جناح علیکم اذا سلمتم ما آتیتم بالمعروف۔(آیت ٢٣٣ ،سورة البقرة٢) اس آیت میں ہے کہ اولاد کا نفقہ باپ پر ہے ، بلکہ جو عورت بچے کو دودھ پلائے اس کی اجرت بھی باپ پر لازم ہے ۔(٢) اور حدیث میں ہے۔ ان ہند بنت عتبة قالت یا رسول اللہ ان ابا سفیان رجل شحیح ولیس یعطینی ما یکفینی وولدی الا ما اخذت منہ وھو لا یعلم فقال خذی ما یکفیک وولدک بالمعروف۔ (بخاری شریف ، باب اذا لم ینفق الرجل فللمرأة ان تأخذ بغیر علمہ ما یکفیک وولدھا بالمعروف، ص ٨٠٨ ، نمبر ٥٣٦٤) اس حدیث میں ہے کہ بچے کا نفقہ باپ پر واجب ہے۔اور بچے کا نفقہ مستقل طور پر واجب ہے تو اس میں کسی کو شریک نہیں کیا جا سکتا۔ہاں بچہ خود دوسرے کو شریک کر لے تو یہ اس کی مرضی ہے۔
ترجمہ: (٢١٨٥) اگر بچہ دودھ پینے والا ہو تو ماں پر لازم نہیں ہے کہ اس کو دودھ پلائے۔