٢ ولنا ان الزوجےة سبب ارثھا فی مرض موتہ و الزوج قصد ابطالہ فیرد علیہ قصدہ بتاخیر عملہ الیٰ زمان انقضاء العدة دفعاً للضرر عنہا ٣ وقد امکن لان النکاح فی العدة یبقی فی حق بعض الاٰثار فجاز ان یبقی فی حق ارثھا عنہ بخلاف ما بعد الانقضاء لانہ لا امکان ٤ والزوجےة فی ھذا الحالة لیست بسبب لارثہ عنھا فیبطل فی حقہ خصوصاً اذا رضی بہ
دلیل یہ اثر ہے ۔اتانی عروة البارقی من عند عمر فی الرجل یطلق امرأتہ ثلاثا فی مرضہ،انھا ترثہ مادامت فی العدة ولا یرثھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،٢٠٢ من قال ترثہ مادامت فی العدة منہ اذا طلق وھو مریض، ج رابع، ص ١٧٧، نمبر ١٩٠٣١ سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی توریث المبتوتة فی مرض الموت ج سابع، ص ٥٩٥، نمبر ١٥١٣١) اس اثر سے معلوم ہوا کہ شوہر عورت کا وارث نہیں ہو گا ۔
ترجمہ: ٢ ہماری دلیل یہ ہے کہ بیوی ہو نا مرض الموت میں وراثت کا سبب ہے ، اور شوہر نے اس کو باطل کرنے کا ارادہ کیا اس لئے اس کے ارادے کو اس پر رد کر دیا جائے گا اس کے عمل کو عدت کے ختم ہو نے تک مؤخر کرکے عورت سے ضرر کو دفع کرنے کے لئے۔
تشریح: ہماری دلیل یہ ہے کہ شوہر جب مرض الموت میں ہے تو یہ بیوی رہتی تو اس کی واراثت ملنے کی امید ہو چلی تھی ، لیکن شوہر نے پہلے ہی طلاق بائنہ دیکر اس کے حق کو باطل کر نا چاہا تو شریعت نے اس کے ارادے کو رد کردیا ، لیکن عدت کے اندر اندر حق دیا گیا ہے ، کیونکہ عدت کے اندر اندر کسی نہ کسی درجے میں وہ بیوی ہے ، اور عدت گزر جانے کے بعد چونکہ مکمل طور پر وہ بیوی نہیں رہی اس لئے اب وراثت نہیں ملے گی ۔
ترجمہ: ٣ اور وراثت دینا ممکن ہے اس لئے کہ نکاح عدت کے اندر بعض آثار کے حق میں باقی رہتا ہے تو جائز ہے کہ شوہر کی وراثت کے حق میں بھی باقی رہے ، بخلاف عدت گزر جانے کے بعد اس لئے کہ اب وراثت کا امکان نہیں ہے ۔
تشریح: ]١[ عدت شوہر کے لئے گزارتی ہے۔]٢[ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی ، یہ بھی بیوی ہونے کی دلیل ہے۔ ]٣[ اس درمیان بچہ پیدا ہو تو شوہر کا شمار کیا جائے گا ۔]٤[ عدت کا نان نفقہ سکنہ شوہر کے ذمہ ہیں ، یہ سب بیوی ہو نے کی دلیل ہے اس لئے یہاں تک وراثت مل سکتی ہے ، اور عدت ختم ہو جانے کے بعد کسی طرح بھی بیوی نہیں رہی اس لئے اب وراثت دینے کا امکان نہیں ہے ۔
ترجمہ: ٤ مرض الموت کی حالت میں شوہر بیوی کا وارث بنے زوجیت اس کا سبب نہیں ہے ۔ اس لئے شوہر کا حق باطل ہو جائے گا خصوصا جبکہ اپنے حق باطل کر نے پر راضی ہو ۔