(١٨٩٥) وان قال انت طالق ثلثا الاواحدة طلقت ثنتین وان قال انتِ طالق ثلثاً الاثنتین طلقت واحدة) ١ والاصل ان الاستثناء تکلم بالحاصل بعد الثنیا ھو الصحیح و معناہ انہ تکلم بالمستثنیٰ منہ اذ لا فرق بین قول القائل لفلانٍ علیَّ درھم وبین قولہ عشرة الاتسعة
٢ فیصح استثناء البعض من الجملة لانہ یبقی التکلم بالبعض بعدہ ولا یصح استثناء الکل من
ہے کہ ان شاء اللہ کہنے سے پہلے انتقال ہو گیا تو ان شاء اللہ نہیں کہہ پایا ، اس لئے صرف انت طالق رہا اس لئے اس سے طلاق واقع ہو جائے گی ۔
ترجمہ: (١٨٩٥) اگر بیوی سے کہا تم کو طلاق ہے تین مگر ایک تو طلاق واقع ہوگی دو۔ اور اگر کہا تم کو طلاق ہے تین مگر دو تو ایک طلاق واقع ہو گی ۔
تشریح: جب بیوی سے کہا کہ، تم کو تین طلاقیں ہیں مگر ایک ، تو اب دو طلاقیں باقی رہیں اس لئے اب دو طلاقیں واقع ہوں گی۔اور اگر کہا،تم کوتین طلاقیں ہیں مگر دو ، تو اب ایک ہی باقی رہ گئی اس لئے اس صورت میں ایک طلاق واقع ہو گی ۔
وجہ : (١)تین طلاق میں سے ایک کو استثناء کرکے ساقط کر دیا تو دو طلاقیں رہیں اس لئے دو طلاقیں ہی واقع ہوںگی ، اسی طرح تین میں سے دو کی نفی کر دی تو ایک باقی رہی اس لئے ایک طلاق واقع ہو گی (٢) حدیث میںایسا استثناء ہے۔ عن ابی ھریرة ان رسول اللہ قال ان للہ تسعة وتسعین اسما مائة الا واحدا من احصاھا دخل الجنة ۔ (بخاری شریف ، باب ان للہ مائة اسم الا واحدة ،ص ١٠٩٩ ،نمبر ٧٣٩٢،کتاب التوحید مسلم شریف ، باب فی اسماء اللہ تعالی وفضل من احصاھا، ص ٣٤٢ ،نمبر ٦٨٠٩٢٦٧٧)اس حدیث میں سو میں سے ایک کو استثناء کیا جس کی بنا پر نناوے نام باقی رہے۔
اصول: استثناء کرنے کے بعد جو باقی رہتاہے اعتبار اس کا ہوتا ہے۔
ترجمہ: ١ ضابطہ یہ ہے کہ استثناء اس مقدار کا تکلم کر نا ہے جو استثناء کے بعد حاصل ہوئی ہو ، یہی صحیح ہے اس کے معنی یہ ہے کہ باقی مستثنی منہ کے ساتھ کلام کیا ، اس لئے کہ کوئی فرق نہیں ہے ان دونوں قولوں کے درمیان کہ فلاں کے لئے مجھ پر ایک درہم ہے ، اور دس درہم ہیں سوائے نو کے ۔
تشریح: استثناء کا ضابطہ یہ ہے کہ استثناء کر نے کے بعد جو باقی رہا وہ اصل ہے ۔مثلا کہا تمہارا مجھ پر دس درہم ہے مگر نو درہم ، تو اب ایک درہم باقی رہا تو یوں سمجھا جائے گا کہ اس پر ایک درہم ہے، چنانچہ یوں کہے کہ تمہارا مجھ پر ایک درہم ہے ، یا یوں کہے کہ تمہارا مجھ پر دس ہے مگرنو درہم ،تو دو نوں کا حکم برابر ہے ۔
ترجمہ: ٢ تو کل سے بعض کا استثناء کر نا صحیح ہے ، اس لئے کہ اس کے بعد بعض کا تکلم باقی رہتا ہے ، اور کل کا استثناء کل سے صحیح