٢ وأما الزوجة فلأن السبب ہو العقد الصحیح فانہ بازاء الاحتباس الثابت بہ وقد صح العقد بین المسلم والکافرة وترتب علیہ الاحتباس فوجبت النفقة ٣ وف جمیع ما ذکرنا انما تجب النفقة علی الأب ذا لم یکن للصغیر مال أما ذا کان فالأصل أن نفقة الانسان ف مال نفسہ صغیراً کان أو کبیراً۔
فسترضع لہ اخری۔ (آیت ٦ ،سورة الطلاق ٦٥) سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کا نفقہ باپ پر لازم ہے۔اور دین کی تفصیل نہیں ہے کہ مسلمان ہو تب ہی لازم ہوگا۔اس لئے دین میں مخالف ہو تب بھی لازم ہوگا۔(٤)عورت کا نفقہ احتباس کی وجہ سے لازم ہوتا ہے اس لئے دین میں مخالف ہو تب بھی نفقہ لازم ہوگا (٥) آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی کا نفقہ لازم ہے اس لئے دین کے مخالف بیوی کا بھی نفقہ لازم ہوگا کیونکہ وہ بیوی ہے۔آیت میں تھا۔۔وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف ۔ (آیت ٢٣٣، سورة البقرة٢) اس آیت میں ہے کہ بیوی کا نفقہ اور اس کا کپڑا باپ پر ہے ۔
ترجمہ: ٢ بہر حال بیوی کا نفقہ تو سبب نکاح صحیح کا عقد ہے ، اس لئے کہ وہ اس حبس کے بدلے میں ہے جو عقد سے ثابت ہو ، اور یہ بات صحیح ہے کہ مسلمان اور کافرہ کے درمیان نکاح کا عقد صحیح ہے اور اس پر احتباس مرتب ہے اس لئے نفقہ واجب ہو گا ۔
تشریح: بیوی کا نفقہ واجب ہونے کے لئے یہ دلیل عقلی ہے ۔ نکاح صحیح کی وجہ سے جو احتباس ہو، وہ احتباس نفقہ واجب ہونے کا سبب ہے ، اور یہودیہ اور نصرانیہ سے نکاح صحیح ہے اس لئے وہ گھر میں بھی بیوی بن کر رہے گی اور اس کا احتباس بھی صحیح ہو گا اور اس کا نفقہ بھی لازم ہو گا ، اس لئے دین میں مخالف ہو نے کے باوجود بیوی اور اولاد کا نفقہ واجب ہے ۔
ترجمہ: ٣ یہ تمام جو ذکر کیا گیا باپ پر نفقہ واجب ہوتا ہے جبکہ چھوٹی اولاد کے پاس مال نہ ہو ، بہر حال جب اس کے پاس مال ہو تو اصل یہ ہے کہ انسان کا نفقہ اپنے مال میں واجب ہو تا ہے آدمی چھوٹا ہو یا بڑا ہو ۔
تشریح: اوپر جو ذکر کیا کہ چھوٹی اولاد کا نفقہ باپ پر ہے ، یہ اس وقت ہے جبکہ خود اولاد کے پاس اپنا مال نہ ہو ، پس اگر اولاد کے پاس اپنا مال ہو تو اس کے اپنے مال میں نفقہ لازم ہو گا ، باپ پر لازم نہیں ہو گا ، کیونکہ اصل یہ ہے کہ انسان بڑا ہو یا چھوٹا اس کا نفقہ اس کے اپنے مال میں لازم ہو تا ہے، اس لئے صغیر کے پاس مال ہو تو اس کے مال میں نفقہ لازم ہو گا ۔ عورت کا حال یہ ہے کہ شوہر سے جو نفقہ لے رہی ہے وہ احتباس کی مزدوری ہے ، اس لئے اس کا نفقہ بھی اپنے ہی مال میں ہو۔
وجہ : (١) اس حدیث میں ہے کہ پہلے اپنے اوپر خرچ کرو ۔عن جابر قال اعتق رجل من بنی عذرة عبدا لہ عن دبر ....ثم قال ابدأ بنفسک فتصدق علیھا فان فضل شیء فلاھلک فان فضل عن اھلک شیء فلذی قرابتک فان فضل عن ذی قرابتک شیء فھکذا فھکذا یقول فبین یدیک و عن یمینک و عن