١ دفعا للضرر عنہ والیہ الاشارة بقولہ تعالی لا تضار والدة بولدہا ولا مولود لہ بولدہ أ بالزامہ لہا أکثر من أجرة الأجنبیة۔ (٢١٩٢) ونفقة الصغیر واجبة علی أبیہ وان خالفہ ف دینہ کما تجب نفقة الزوجة علی الزوج وان خالفتہ ف دینہ) ١ أما الولد فلاطلاق ماتلونا وعلی المَوْلُوْد لَہ رزقہُنَّ الآیة، ولأنہ جزؤہ فیکون ف معنی نفسہ
لاؤ۔
ترجمہ: ١ باپ سے ضرر دفع کرنے کے لئے اسی کی طرف اللہ تعالی کے قول۔لاتضار والدة بولدھا ولا مولود لہ بولدہ۔ (آیت ٢٣٣ ،سورة البقر٢) میں اشارہ کیا یعنی باپ پر اجنبیہ کی اجرت سے زیادہ لازم کر کے نقصان دے ۔
تشریح: دودھ پلانے کی جتنی اجرت اجنبیہ مانگتی ہے ماں اس سے زیادہ اجرت مانگتی ہو تو باپ کو اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا کہ ماں کو لے اس لئے کہ اس سے باپ کو نقصان ہو گا ، اور آیت میں ہے کہ بچے کی وجہ سے باپ کو نقصان نہیں ہوناچاہئے ، آیت اوپر گزر گئی ۔
وجہ:(١) کیونکہ اس سے والد کو نقصان ہوگا ۔اور آیت میں والد کو نقصان دینے سے منع فرمایا ۔اوپر آیت میں تھا۔ولا مولود لہ بولدہ اس لئے باپ کو زیادہ اجرت دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
لغت : التمس : مانگنا،تلاش کرنا۔
ترجمہ:(٢١٩٢)چھوٹی اولاد کا نفقہ واجب ہے اس کے باپ پر اگرچہ دین میں مخالف ہو۔ جیسا کہ بیوی کا نفقہ شوہر پر ہوتا ہے اگر چہ دین میں مخالف ہو ۔
ترجمہ: ١ بہربحال اولاد کا نفقہ تو اس آیت کے مطلق ہونے کی وجہ سے جو ہم نے تلاوت کی ۔وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف، اور اس لئے کہ اولاد انسان کا جز ہے تو اپنی ذات کے درجے میں ہو گیا ۔
تشریح: مثلا باپ مسلمان ہے اور اولاد عیسائی ہے پھر بھی جب تک نابالغ ہے ان کا نفقہ والد پر واجب ہے۔جیسے شوہر مسلمان ہو اور بیوی عیسائی ہو پھر بھی اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے۔ اس لئے کہ اولاد انسان کا جز ہے تو جس طرح اپنی ذات کی حفاظت کے لئے اپنا نفقہ استعمال کرنا پڑتا ہے اسی طرح اولاد کا نفقہ دینا ہو گا تاکہ اس کی حفاظت ہو جائے اور ضائع نہ ہو جائے ۔
وجہ : (١)اگر بچے کا نفقہ باپ پر واجب نہ کریں تو بچہ ضائع ہو جائے گا اس لئے چھوٹی اولاد کا نفقہ باپ پر لازم ہے۔ (٢)اوپر کی آیت میںہے کہ اولاد کانفقہ باپ پرہے ۔وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف ۔ (آیت ٢٣٣، سورة البقرة٢) (٣) دوسری آیت میں ہے ۔فان ارضعن لکم فأتوھن اجورھن وأتمروا بینکم بمعروف وان تعاسرتم