٥ وقولہ ف الکتاب ذا کان موسرا اشارة الی أنہ لا تجب نفقةُ الخادم عند اعسارہ وہو روایة الحسن عن أب حنیفة وہو الأصح ٦ خلافا لما قالہ محمد ٧ لأن الواجب علی المعسر أدنی الکفایة وہ قد تکتف بخدمة نفسہا (٢١٦٥) ومن أعسر بنفقة امرأتہ لم یفرق بینہما ویقال لہا استدین علیہ )
ترجمہ: ٥ متن کا یہ جملہ ٫اذا کان موسرا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شوہر کے تنگدست ہوتے وقت خادم کا نفقہ لازم نہیں ہو گا ، یہی روایت امام ابو حنیفہ سے حضرت حسن کی ہے اور وہی صحیح ہے ،
تشریح: متن میں ہے کہ اذا کان موسرا، کہ شوہر مالدار ہو تب اس پر خادم کا نفقہ واجب ہے ، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک شوہر تنگدست ہو تو چاہے بیوی کے پاس پہلے سے خادم موجود ہو پھر بھی اس پر خادم کا نفقہ واجب نہیں ہے ، اور صحیح روایت یہی ہے۔
وجہ : اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شوہر پر ادنی نفقہ واجب ہے جو مشکل سے عورت کو کفایت کر جائے ، اور عورت اپنا کام خود بھی کر سکتی ہے اس لئے خادم کے نفقے کی ضرورت نہیں ہے ۔
ترجمہ: ٦ برخلاف جو امام محمد نے کہا۔
تشریح: امام محمد نے فر مایا کہ عورت کے پاس پہلے سے خادم ہو تو اس کا نفقہ تنگدست شوہر پر بھی لازم ہے ۔
وجہ : اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس عورت کے پاس خادم موجود ہے تو یہ عورت سست ہے اس لئے خود اپنا کام نہیں کر سکتی ہو گی ، تو اس عورت کے لئے خادم کی خدمت بھی کفایت میں سے ہوگئی ، اور شوہر پر کفایت نفقہ واجب ہے اس لئے اس خادم کا نفقہ بھی لازم ہو گا ، ہاں اگر اس کے پاس پہلے سے خادم نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ یہ عورت چست ہے اور اپنا کام خود کر لیتی ہے اس لئے اس کو خادم کی چنداں ضرورت نہیں ہے اس لئے اس کے لئے خادم کے نفقہ کی ضرورت نہیں ہے ۔
ترجمہ: ٧ اس لئے کہ تنگدست پر ادنی کفایت واجب ہے،اور بیوی کبھی بذات خود اپنے کاموں کی کفایت کر لیتی ہے ] اس لئے خادم کے نفقے کی ضرورت نہیں ہے [
تشریح: یہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد کی دلیل ہے۔ کہ عورت خود اپنا کام کر لیتی ہے اس لئے خادم کے نفقے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔
ترجمہ:(٢١٦٥) کوئی شخص عاجز ہو جائے بیوی کے نفقے سے تو دونوں میں تفریق نہیں کی جائے اور بیوی سے کہا جائے گا کہ تو اس کے ذمہ قرض لیتی رہ ۔