١ لأن امتناع الاستمتاع لمعنی فیہا والاحتباس الموجب ما یکون وسیلة الی مقصود مستحق بالنکاح ولم یوجد بخلاف المریضة علی ما نبین ٢ وقال الشافع لہا النفقة لأنہا عوض عن الملک عندہ کما ف المملوکة بملک الیمین ٣ ولنا أن المہر عوض عن الملک ولا یجتمع العوضان عن معوض واحد فلہا المہر دون النفقة.
ترجمہ: ١ اس لئے کہ عورت کی وجہ سے وطی ممتنع ہے ، اور جو احتباس نفقہ واجب کرتا ہے وہ احتباس ہے نکاح کا مقصد حاصل ہوتا ہو ، اور وہ نہیں پایا گیا بخلاف بیمار عورت کے۔
تشریح: وطی سے رکنا چھوٹی عورت کی وجہ سے ہے ، اور یہاں احتباس تو ہے ، لیکن وہ احتباس مقصود ہے جو وطی کا وسیلہ ہو اور یہاں وطی نہیں کر سکتا اس لئے اس احتباس کی وجہ نفقہ کا بھی مستحق نہیں ہو گا ۔ اور بیمار عورت سے بھی وطی نہیں کر سکتا پھر بھی وہ نفقہ کی مستحق ہے اس کی وجہ آگے آرہی ہے ۔
ترجمہ: ٢ امام شافعی نے فرمایا کہ چھوٹی کے لئے نفقہ ہے ، کیونکہ نفقہ انکے یہاں شوہر کی ملک کا عوض ہے جیسا کہ اس عورت کا نفقہ جسکی ذات کا مالک ہوتا ہے ۔
تشریح: امام شافعی نے فرمایا کہ کہ چھوٹی کے لئے نفقہ ہے ، اور صاحب ہدایہ نے دلیل یہ پیش کی ہے کہ انکے یہاں ملک کے بدلے میں ہے جیسے باندی پر ملکیت ہوتی ہے تو اس کا نفقہ دینا پڑتا ہے ، اور یہاں بھی ملک نکاح ہے اور شوہر کے گھر میں ہے اس لئے اس کو نفقہ دینا ہو گا چاہے جماع نہ کر سکتا ہو۔ لیکن موسوعہ میں ہے کہ یہ بعض شوافع کا قول ہے ورنہ اکثر کا قول یہی ہے کہ اس کے لئے نفقہ نہیں ہے ۔ عبارت یہ ہے ۔ قال و اذا نکح الصغیرة التی لا یجامع مثلھا و ھو صغیر او کبیر فقد قیل لیس علیہ نفقتھا لانہ لا یستمتع بھا و اکثر ما ینکح لہ الستمتاع بھا و ھذا قول عدد من علماء اھل زماننا ۔ ( موسوعہ امام شافعی ، باب وجوب نفقة المرأة ، ج عاشر، ص ٣٣٠،نمبر ١٦٥٠٥) اس عبارت میں ہے کہ اکثر شوافع کا قول ہے کہ چھوٹی کے لئے نفقہ نہیں ہے ۔
وجہ : انکی دلیل یہ حدیث بن سکتی ہے ۔۔عن جعفر بن محمد عن ابیہ قال دخلنا علی جابر بن عبد اللہ فسأل عن القوم حتی انتہی الی ......ولھن علیکم رزقھن وکسوتھن بالمعروف۔ ( مسلم شریف ، باب حجة النبی، ۖ ص ٣٩٤، نمبر ١٢١٨ ٢٩٥٠ ابو داؤد شریف، باب صفة حجة النبی، ۖ ص ٢٦٩، نمبر ١٩٠٥) اس حدیث میں بالغ اور نا بالغ بیوی کا فرق نہیں کیا بلکہ ہر قسم کی بیوی کے لئے نفقہ لازم کیا اس لئے صغیرہ کے لئے بھی نفقہ ہوگا۔
ترجمہ: ٣ ہماری دلیل یہ ہے کہ ملک کا عوض مہر ہے ، اورایک معوض کے بدلے دو عوض جمع نہیں ہو سکتے ، اس لئے عورت کے