(٢١٥٧) وان امتنعت من تسلیم نفسہا حتی یعطیہا مہرہا فلہا النفقة) ١ لانہ منع بحق فکان فوت الاحتباس بمعنی من قبلہ فیجعل کلا فائت
تشریح: آیت اور حدیث میں گزرا کہ عورتوں کو معروف نفقہ دو اور معروف کا مطلب ہوتاہے کہ اس وقت اور اس حالت کے مناسب اور یہ ہر جگہ اور ہر حال کے لئے الگ الگ ہوتا ہے اس لئے اس کے لئے کوئی ایک مقدار متعین نہیں کیا جا سکتا ، اور امام شافعی نے جو مالدار عورت کے لئے دو مد ، اور غریب کے لئے ایک مد ، اور اوسط کے لئے ڈیڑھ مد متعین کیا ہے ، یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ شریعت میں ہے کافی نفقہ دو تو ہر حال کے لئے الگ الگ کافی ہوتا ہے اس لئے کوئی ایک مقدار متعین نہیں ہو سکتا ، موسوعہ میں عبارت یہ ہے ۔
۔موسوعہ کی عبارت سے ۔ قال: و النفقة نفقتان نفقة الموسر و نفقة المقتر علیہ رزقہ و ھو الفقیر ....قال: و اقل ما یلزم االمقتر من نفقة امراتہ المعروف ببلدھما.....و ذالک مد بمد النبی ۖ لھا فی کل یوم من طعام البلد الذی یقتاتون ۔اس عبارت میں ہے کہ غریب کے لئے ایک مد
مالدار کے لئے دو مد :قال و ان کان زوجھا موسعا علیہ فرض لھا مدین بمد النبی ۖ
اوسط کے لئے ڈیڑھ مد۔قال :و الفرض علی الوسط الذی لیس بالموسع و لا بالمقتر ما بینھما مد و نصف للمرأة و مد للخادم ۔( موسوعة امام شافعی ، باب کتاب النفقات ، باب قدر النفقة ، ج عاشر، ص ٣٠٢، نمبر ١٦٥١٣، ١٦٥٢٤، ١٦٥٣٥)
ترجمہ: (٢١٥٧) اگر عورت باز رہے اپنے آپ کو سپرد کرنے سے یہاں تک کہ اس کو مہر دے تو اس کے لئے نفقہ ہے۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ حق لینے کے لئے عورت نے روکا ہے تو ایسا ہو گیا کہ مرد ہی کی وجہ سے احتباس فوت ہوا ہے ، اس لئے ایسا قرار دیا جائے گا کہ محبوس کرنا فوت نہیں ہوا ۔
تشریح: عورت اپنے آپ کو اس لئے سپرد نہیں کر رہی ہے کہ مہر دے تب اپنے آپ کو سپرد کروںگی تو اس صورت میں عورت کو نفقہ ملے گا۔ کیونکہ شوہر کے مہر نہ دینے کی وجہ سے بضع سپرد نہیں کیا ہے ، توایسا سمجھو کہ شوہر کی شرارت کی وجہ سے احتباس ختم ہوا ہے ، تو گویا کہ احتباس ختم نہیں ہوا اس لئے عورت کو نفقہ ملے گا ۔
وجہ: اس لئے کہ عورت اپنے حق کی وجہ سے سپرد نہیں کر رہی ہے اس لئے وہ ناشزہ نہیں ہوئی اور گویا کہ سپرد کر دیا اس لئے اس کو نفقہ ملے گا۔
لغت: احتباس : اسی سے ہے محبوس ، بیوی اپنے آپ کو شوہر کے گھر میں رکھے اور اس کو جماع کرنے دے اس کو احتباس کہتے ہیں ، اسی احتباس سے عورت نفقہ کا حقدار بنتی ہے ۔