٣ وجہ الأول قولہ علیہ السلام لہند امرأة أب سفیان خذ من مال زوجک ما یکفیک وولدک بالمعروف اعتبر حالہا ٤ وہو الفقہ فان النفقة تجب بطریق الکفایة والفقیرة لا تفتقر الی کفایة الموسرات فلا معنی للزیادة
فرض لھا مدین بمد النبی ۖ .....قال :و الفرض علی الوسط الذی لیس بالموسع و لا بالمقتر ما بینھما مد و نصف للمرأة و مد للخادم ۔( موسوعة امام شافعی ، باب کتاب النفقات ، باب قدر النفقة ، ج عاشر، ص ٣٠٢، نمبر ١٦٥١٣، ١٦٥٢٤، ١٦٥٣٥)
وجہ : (١) وان تعاسرتم فسترضع لہ اخری o لینفق ذوسعة من سعتہ ومن قدر علیہ رزقہ فلینفق مما آتاہ اللہ لا یکلف اللہ نفسا الا مآتاھا سیجعل اللہ بعد عسر یسرا ۔(آیت ٧، سورة الطلاق ٦٥) اس آیت میں٫ ذو سعة من سعتہ ، مذکر کا صیغہ ہے کہ شوہر کی گنجائش کے مطابق نفقہ لازم ہے ۔ (٢) اس حدیث میں ہے۔ عن جدہ معاویة القشیری قال اتیت رسول اللہ قال فقلت ما تقول فی نسائنا قال اطعموھن مما تأکلون واکسوھن مما تکتسون ۔ (ابو داؤد شریف ، باب فی حق المرأة علی زوجھا ، ص ٢٩٨ ،نمبر ٢١٤٤) اس حدیث میں ہے کہ جو کھاتے ہو وہ کھلاؤ جس سے معلوم ہوا کہ مردکا عتبار ہے۔
ترجمہ: ٣ پہلے قول کی وجہ حضور علیہ السلام کا قول حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند کے لئے اپنے شوہر کے مال میں سے اتنا لو جتنا تم کو اور تمہارے بچے کو معروف کے ساتھ کافی ہو، اس میں عورت کی حالت کا اعتبار کیا ۔
تشریح: اس حدیث میں فرمایا کہ جتنا تمکو کافی ہو اور تمہاری اولاد کو کافی ہو اتنا لے لو جس سے معلوم ہوا کہ عورت کی حالت کا اعتبار ہے ۔ قالت ھند یا رسول اللہ ان ابا سفیان رجل شحیح فھل علی جناح ان آخذ من مالہ ما یکفینی وبنی ؟ قال خذی بالمعروف ۔ (بخاری شریف، باب وعلی الوارث مثل ذلک، ص ٨٠٨ ، نمبر ٥٣٧٠مسلم شریف ، باب قضیة ھند ، ص ٧٦٠، نمبر ٤٤٧٧١٧١٤)
ترجمہ: ٤ اور فقہ ] سمجھ کی بات [بھی یہی ہے ، اس لئے کہ نفقہ کفایت کے طور پر واجب ہوتاہے ، اور جو عورت فقیر ہے اس کو مالدار عورت کی کفایت درکار نہیں ہوتی ، اس لئے زیادہ واجب کرنے کا کچھ معنی نہیں رہا ۔
تشریح: فقہ اور سمجھ کی بات بھی یہی ہے کہ جو عورت جس مقدار کی ہو اسی مقدار کا نفقہ دیا جائے ، اس لئے کہ جتنی کفایت کرے اتنا نفقہ واجب ہوتا ہے ، اب ایک عورت غریب ہے اس لئے اس کو غریب کا نفقہ کافی ہے ، اس لئے اس کو مالدار کا نفقہ دینے کا فائدہ کیا ہے ، اس لئے نفقہ دینے میں عورت کی حالت کا بھی اعتبار کیا جائے گا ۔