١ وقال الشافع لہما الخیار لأن النب علیہ السلام خیر ٢ ولنا نہ لقصور عقلہ یختار من عندہ الدعة لتخلیتہ بینہ وبین اللعب فلا یتحقق النظر ٣ وقد صح أن الصحابة لم یخیروا
فانطلقت بہ (ابو داؤد شریف، باب من احق بالولد، ص ٣١٧ ،نمبر ٢٢٧٧) اس حدیث میں عبارت ہے کہ لڑکے نے مجھے بیر ابی عنبہ سے پانی پلایا اور نفع دیا جس سے معلوم ہوا کہ لڑکا آٹھ نو سال کا تھا جس کو ماں یا باپ کے ساتھ رہنے کا حضورۖ نے اختیار دیا۔ (٣) اس اثر میں ہے کہ بڑا ہو جائے تب بچے کواختیارہو گا ۔ ان عمر بن الخطاب طلق ام عاصم ثم اتی علیھا و فی حجرھا عاصم فأراد ان یاخذ ہ منھا فتجاذباہ بینھما حتی بلی الغلام فانطلقا الی ابی بکر فقال لہ ابو بکر یا عمر مسحھا و حجرھا و ریحھا خیر لہ منک حتی یشب الصبی فیختار ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب ما قالوا فی الرجل یطلق امراتہ و لھا ولد صغیر ، ج رابع ، ص١٨٥، نمبر١٩١١٦) اس اثر میں ہے٫ یشب فیختار ، بڑا ہو جائے تب اس کو اختیار ہو گا ۔
ترجمہ: ١ امام شافعی نے فر مایا کہ ان دونوں کو اختیار ہو گا ، اس لئے کہ نبی علیہ السلام نے اختیار دیا ۔
تشریح: امام شافعی فر ماتے ہیں کہ حضور ۖ نے بچے کو اختیار دیا اس لئے بچے کو اختیار دیا جائے گا ، انکی حدیث یہ ہے ۔ عن جدی رافع بن سنان انہ اسلم وابت امرأتہ ان تسلم فاتت النبی ۖ فقالت ابنتی وھی فطیم او شبھہ وقال رافع ابنتی فقال لہ النبی ۖ اقعد ناحیة وقال لھا اقعدی ناحیة واقعد الصبیة بینھما ثم قال ادعواھا فمالت الصبیة الی امھا فقال النبی ۖ اللھم اھدھا فمالت الصبیة الی ابیھا فاخذھا ۔ (ابو داؤد شریف ، باب اذا اسلم احد الابوین لمن یکون الولد ؟، ص ٣١٢ ،نمبر ٢٢٤٤ نسائی شریف ، باب اسلام احد الزوجین وتخییر الولد ،ص ٤٩١ ،نمبر ٣٥٢٥) اس حدیث میں کہ حضور ۖ نے بچے کو باپ یا ماں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا ۔
ترجمہ: ٢ ہماری دلیل یہ ہے کہ بچہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے اسی کو اختیار کرے گا جس کے پاس اس کو آرام ملے گا ، بچہ اور کھیل کے درمیان تخلیہ کر دینے کی وجہ سے ، پس شفقت کی نظر متحقق نہیں ہو گی ۔
تشریح: ہماری دلیل یہ ہے کہ بچے کو جہاں آرام ملے گا اور کھیل ملے گا اسی کو منتخب کرے گا ، زندگی کے لئے بہتر کون ہے وہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے اس کا انتخاب نہیں کر سکے گا ، اس لئے بچے کو اختیار دینا مناسب نہیں ہے ۔
لغت : الدعة : آرام ۔
ترجمہ: ٣ صحیح روایت میں یہ آیا ہے کہ صحابہ نے بچے کو اختیار نہیں دیا
تشریح: صحیح روایت میں ہے کہ صحابہ نے بچپنے میں اختیار نہیں دیا بلکہ ماں کے لئے فیصلہ فر مایا اور بڑا ہونے کے بعد اختیار دیا ۔ صحابہ کی روایت یہ ہے ۔ (١) ان عمر بن الخطاب طلق ام عاصم ثم اتی علیھا و فی حجرھا عاصم فأراد ان یاخذ