(٢١٥٢) والذمیة أحق بولدہا المسلم مالم یعقل الأدیان أو یخاف أن یألف الکفر) ١ للنظر قبل ذلک واحتمال الضرر بعدہ (٢١٥٣) ولا خیار للغلام والجاریة)
ترجمہ: (٢١٥٢) ذمیہ عورت زیادہ حقدار ہے اپنے مسلمان بچے کی جب تک کہ دین نہ سمجھنے لگے اور اس پر خوف نہ ہو کہ کفر سے مانوس ہو جائے۔
ترجمہ: ١ اس سے پہلے اس کے لئے مصلحت ہے ، اور اس کے بعد ضرر کا احتمال ہے ۔
تشریح: باپ مسلمان ہے اور اس کے تحت میں بچہ بھی مسلمان ہے ۔اب نصرانیہ یا یہودیہ یا کافرہ بیوی سے جدائیگی ہوئی تو جب تک بچہ دین کو نہ سمجھتا ہو اورکفر کے ساتھ مانوس ہونے کا خطرہ نہ ہو تو سات سال کے اندر اندر وہ ماں کی پرورش میں رہ سکتا ہے۔اور اگر سات سال کے اندر اندر دین کو سمجھنے لگا ہے اور کفر کے ساتھ مانوس ہونے کا خطرہ ہو جائے تو ماں سے واپس لے لیا جائے گا۔
وجہ: (١) ایک طرف چھوٹے ہونے کی وجہ سے پرورش کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف کفر سے مانوس ہونے کا معاملہ ہے اس لئے دونوں کی رعایت کی جائے گی۔(٢)حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ کفر کی وجہ سے بچپنے ہی میں حضورۖ نے باپ کو دے دیا۔عن جدی رافع بن سنان انہ اسلم وابت امرأتہ ان تسلم فاتت النبی ۖ فقالت ابنتی وھی فطیم او شبھہ وقال رافع ابنتی فقال لہ النبی ۖ اقعد ناحیة وقال لھا اقعدی ناحیة واقعد الصبیة بینھما ثم قال ادعواھا فمالت الصبیة الی امھا فقال النبی ۖ اللھم اھدھا فمالت الصبیة الی ابیھا فاخذھا ۔ (ابو داؤد شریف ، باب اذا اسلم احد الابوین لمن یکون الولد ؟، ص ٣١٢ ،نمبر ٢٢٤٤ نسائی شریف ، باب اسلام احد الزوجین وتخییر الولد ،ص ٤٩١ ،نمبر ٣٥٢٥) اس حدیث میں والدہ کی کفر کی وجہ سے حضورۖ نے دعا کی اور دعا کی برکت سے بچی باپ کے پاس چلی گئی۔البتہ پرورش کی بھی ضرورت ہے اس لئے دین کے سمجھنے سے پہلے پہلے تک ماں کے پاس رکھا جائے گا۔
ترجمہ: ( ٢١٥٣) لڑکا کو یا لڑکی کو کوئی اختیار نہیں ہے ۔
تشریح: جتنی عمر تک ماں وغیرہ کے پاس پرورش کا حق ہے اتنی عمر تک بچے کو ماں وغیرہ کے پاس رہنا ہو گا ، اس درمیان میں لڑکا یا لڑکی کو ماں کے پاس یا باپ کے پاس رہنے کا اختیار نہیں ہو گا ، اور بچے کو اختیار دینے کا جو واقعہ ہے وہ بڑا ہونے کے بعد ہے ۔
وجہ : (١) بچہ چھوٹا ہے اس کو عقل نہیں ہے اس لئے اگر اسکو انتخاب کرنے کا اختیار دیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ غلط انتخاب کر لے اس لئے اسکو انتخاب کرنے کا اختیار نہیں دیا جائے گا ۔ (٢) اس حدیث کے اشارے سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ سال کے بعد بچے کو اختیار ملا ہے ۔قال بینما انا جالس مع ابی ھریرة جائتہ امرأة فارسیة معھا ابن لھا... فقالت یا رسول اللہ ان زوجی یرید ان یذھب بابنی وقد سقانی من بئر ابی عنبة وقد نفعنی فقال رسول اللہ ااستھما علیہ فقال زوجھا من یحاقنی فی ولدی ؟ فقال النبی ۖ ھذا ابوک وھذہ امک فخذ بید ایھما شئت فاخذ بید امہ