٤ وأما الحدیث فقلنا قد قال علیہ السلام اللہم أہدہ فوفق لاختیارہ الأنظر بدعائہ علیہ السلام أو یحمل علی ما ذا کان بالغا
ہ منھا فتجاذباہ بینھما حتی بلی الغلام فانطلقا الی ابی بکر فقال لہ ابو بکر یا عمر مسحھا و حجرھا و ریحھا خیر لہ منک حتی یشب الصبی فیختار ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب ما قالوا فی الرجل یطلق امراتہ و لھا ولد صغیر ، ج رابع ، ص١٨٥، نمبر١٩١١٦) اس اثر میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے بچپنے میں ماں کے لئے فیصلہ کیا اور بڑا ہونے کے بعد اختیار دینے کے لئے فر مایا ۔ (٢) اس اثر میں بھی اس کا ثبوت ہے ۔ ان عمر بن الخطاب حین خاصم الی ابی بکر فی ابنہ فقضی بہ ابو بکر لامہ ثم قال سمعت رسول اللہ ۖ یقول لا تولہ والدة عن ولدھا ۔ ( سنن بیہقی ، باب الام تتزوج فیسقط حقھا من حضانة الولد و ینتقل الی جدتہ ، ج ثامن ، ص٨، نمبر ١٥٧٦٧ مؤطاء امام مالک، کتاب الوصیة،باب ما جاء فی المؤنث من الرجال ومن احق بالولد ، ص ٦٥١ ) اس اثر میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے ماں کے لئے فیصلہ فرمایا ۔
ترجمہ: ٤ بہر حال حدیث کے بارے میں تو ہم کہتے ہیں کہ حضور ۖ نے فر مایا ٫ اللھم اھدہ، اس لئے حضور ۖ کی دعا سے بچہ کو اپنی پسند میں ٹھیک توفیق مل گئی ، یا یہ حدیث ایسی صورت پر محمول ہے کہ بچہ بالغ ہو جائے ۔
تشریح: یہ امام شافعی کو جواب ہے کہ ، آپ نے جو حدیث پیش کی ہے اس کی تاویل یہ ہے کہ اس میں حضور ۖ نے بچے کے لئے دعا کی ہے کہ٫فقال النبی ۖ اللھم اھدھا فمالت الصبیة الی ابیھا فاخذھا ۔ (ابو داؤد شریف ،نمبر ٢٢٤٤) اور اس دعا کی وجہ سے بچے کو ایسے آدمی کے انتخاب کی توفیق ملی جو اس کی زندگی کے لئے بہترتھا ، ورنہ وہ تو ماں کی طرف مائل ہو رہاتھا ، اور ایسی پر اثر دعا کوئی اور نہیں کر سکتا اس لئے بچے کو اختیار بھی نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ دوسرا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ بچہ بالغ تھا اس لئے آپ ۖ نے اسکو اختیار دیا ، اور بالغ ہونے کے بعد تو ہم بھی اختیار دینے کے قائل ہیں ۔ یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔