١ لانہا عست تعجز عن الحضانة (٢١٣٦)فان لم تکن لہ ام فام الام اولیٰ من ام الاب وان بعدت) ١ لان ہٰذہ الولایة تستفاد من قبل الامہات
ترجمہ: ١ اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ پرورش سے عاجز ہو ۔
تشریح: بچہ پرورش کرنے کے زمانے تک بچے کا نفقہ والد پر ہو گا ، اس کی تفصیل آگے باب النفقات میں آر ہی ہے ۔ پرورش کر نے کا حق ماں کا ہے لیکن اگر وہ نہ کرے تو اس پر مجبور نہیں کی جا سکتی ہے ، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس کو مجبوری ہو ۔
وجہ: و الوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة و علی المولود لہ رزقہن و کسوتھن بالمعروف لا تکلف نفس الا وسعھا و لا تضار والدة بولدھا ولا مولود لہ بولدہ ۔ ( آیت ٢٣٣، سورة البقرة ٢) اس آیت میں ہے کہ والدہ کا نفقہ باپ کے ذمے ہے ، اور یہ بھی ہے کہ والدہ کو دودھ پلانے میں تکلیف نہیں ہونی چاہئے ۔
ترجمہ: (٢١٣٦) پس اگر ماں نہ ہو تو نانی زیادہ بہتر ہے دادی سے چاہے دور کی ہو۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ یہ ولایت ماں کی جانب سے مستفاد ہے ۔
تشریح: اگر ماں موجود نہ ہو تو پرورش کا حق نانی کا ہے، چاہے دور کی نانی ہواور یہ دادی سے زیادہ بہتر ہے ، کیونکہ یہ حق ماں کے رشتہ دار کی طرف جاتا ہے ۔ کیونکہ ماں کے رشتہ دار کو زیادہ محبت ہوتی ہے ۔
وجہ: (١) اس اثر میں ہے۔ ان عمر طلق ام عاصم فکان فی حجر جدتہ قخاصمتہ الی ابی بکر فقضی ان یکون الولد مع جدتہ والنفقة علی عمرو قال ھی احق بہ ۔(سنن للبیہقی ،باب الام تتزوج فیسقط حقھا من حصانة الولد وینتقل الی جدتہ ج، ثامن، ص٨، نمبر ١٥٧٦٦) اس اثر میں حضرت ابوبکر نے بچے کی پرورش کا فیصلہ نانی کے لئے کیا۔(٢) اس حدیث میں بچے کی پرورش کا فیصلہ خالہ کے لئے کیا جس سے معلوم ہوا کہ یہ حق والدہ کے رشتہ دار کی طرف جاتا ہے ۔ حدیث یہ ہے ۔حضرت حمزہ کی بیٹی لینے کے لئے حضرت علی،حضرت زید اور حضرت جعفر نے مطا لبہ کیا تو آپۖ نے جعفر کو دی اور فرمایا وہاں لڑکی کی خالہ ہے اور خالہ پرورش کی زیادہ حقدار ہے۔لمبی حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔عن البراء قال اعتمر النبی ذی القعدة ... فقضی بھا النبی لخالتھا وقال الخالة بمنزلة الام ۔(بخاری شریف ،باب کیف یکتب ھذا ما صالح فلان بن فلان وفلان بن فلان وان لم ینسبہ الی قبیلتہ او نسبہ، ص ٣٧١ ،نمبر٢٦٩٩،کتاب الصلح ابو داؤد شریف، باب من احق بالولد ص ٣٣١، نمبر ٢٢٧٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خالہ پرورش کی زیادہ حقدار ہے۔کیونکہ وہ ماں کے درجے میں ہے۔