٣ ولانہ اقربکونہا مؤتمنة فیقبل قولہا فی ردالامانة (٢١٢٨) قال واکثر مدةالحمل سنتان)
١ لقول عائشة الولد لا یبقی فی البطن اکثر من سنتین ولوبظل مغزل
نہیں ہے اس کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جائے گی ۔
ترجمہ: ٣ اور اس لئے کہ شوہر نے اقرار کیا کہ عورت امانت دار ہے ، اس لئے امانت کے لوٹانے میں عورت کی بات قبول کی جائے گی ۔
تشریح: یہ امام ابو حنیفہ کی دوسری دلیل ہے کہ جب شوہر نے اقرار کیا کہ عورت کے پیٹ میں میرا حمل ہے تو بیوی کو اپنے حمل کا امانت دار قرار دیا ، اب بچہ پیدا کرکے وہ امانت کو واپس کر رہی ہے ، اور قاعدہ یہ ہے کہ امانت کے سلسلے میں امانت دار کی بات قبول جاتی ہے اس لئے بغیر کسی گواہی کے عورت کی بات مان لی جائے گی ۔
ترجمہ: (٢١٢٨) حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے ۔
ترجمہ: ١ حضرت عائشہ کے قول کی وجہ سے کہ بچہ پیٹ میں دو برس سے زیادہ نہیں رہتا ، اگر چہ تکلے کے سایہ بھر ہو۔
تشریح: آدمی کا بچہ عموما نو ماہ میں پورا ہو کر پیدا ہو جاتا ہے ،چاہے وہ حمل ٹھہرتے وقت اتنا ہلکا اور باریک تھا کہ تکلے کی سایہ کی طرح تھا تب بھی بڑھتے بڑھتے دو سال میں پورا بچہ ہو جائے گا اور پیدا ہو جائے گا اس سے زیادہ مدت پیٹ میں نہیں رہ سکتا ، اس لئے حمل کی مدت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے اس سے زیادہ نہیں ۔
وجہ: (١)صاحب ہدایہ کا اثر یہ ہے ۔عن عائشة قالت ما تزید المرأة فی الحمل علی سنتین ولا قدر ما یتحول ظل عود المغزل (سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی اکثر الحمل، ج سابع، ص ٧٢٨، نمبر ١٥٥٥٢)(٢) اس اثر میں بھی ہے ۔عن عمر انہ رفعت لہ امراة قد غاب عنھا زوجھا سنتین فجاء و ھی حبلی فھم عمر برجمھا فقال لہ معاذ بن جبل یا امیر المؤمنین ان یک لک السبیل علیھا فلا سبیل لک علی ما فی بطنھا فترکھا عمر حتی ولدت غلاما قد نبتت ثنایاہ فعرف زوجھا شبھہ بہ قال عمر عجز النساء ان یلدن مثل معاذ ، لولامعاذ ھلک عمر۔ ( مصنف عبد الرزاق ، باب التی تضع سنتین ، ج سابع ، ص ٢٨٣، نمبر ١٣٥٢٤سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی اکثر الحمل، ج سابع، ص ٧٢٨، نمبر١٥٥٥٨) اس اثر میں بھی ہے کہ حمل کی مدت زیادہ سے زیادہ دوسال ہے۔
لغت: مغزل : غزل سے مشتق ہے ، دھاگا، دھاگا کاتنے کے لئے گول سی تکلی ہوتی ہے اس کے درمیان لوہے کی سلاخ ہوتی ہے ، جب وہ گھومتی ہے تو اس کا سایہ نہیں ہو تا ، ظل مغزل کا مطلب یہ ہے کہ حمل اتنا چھوٹا اور باریک ہے کہ تکلے کے سائے کی طرح ہے پھر بھی دو سال میں بڑا ہو کر باہر نکل جائے گا ۔