Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 5

400 - 508
٣  فلا تظہر فی حق الطلاق لانہ ینفک عنہا (٢١٢٧)وان کان الزوج قد اقر بالحبل طلقت من غیر شہادة عندابی حنیفةوعندہما تشترط شہادة القابلة)  ١  لانہ لابد من حجة لدعواہا الحنث وشہادتہا حجة فیہ علیٰ مابینا ٢  ولہ ان الاقرار بالحبل اقراربما یفضی الیہ وہوالولادة  

عورتوں کی گواہی کو حجت تامہ کہتے ہیں ، اور ایک دایہ کی گواہی کوحجت ناقصہ کہتے ہیں ۔    
ترجمہ:  ٣   اس لئے طلاق کے حق میں ظاہر نہیں ہو گا ، اس لئے کہ طلاق ولادت سے الگ ہو سکتی ہے ۔
تشریح:اس عبارت میں یہ بتا رہے ہیں کہ ولادت اور طلاق میں تلازم نہیں ہے کہ ولادت ہو تو طلاق بھی لازمی طور پر ہو ، کیونکہ کہیں طلاق ہوتی ہے اور ولادت نہیں ہوتی ، اور کبھی ولادت ہوتی ہے اور طلاق نہیں ہوتی ، اس لئے ولادت ایک دایہ کی گواہی سے ثابت ہونے سے یہ ضروری نہیں ہے کہ طلاق بھی اسی سے ثابت کی جائے ،اس لئے طلاق کے لئے شہادت کاملہ چا ہئے ۔
 ترجمہ:  (٢١٢٧)  اگر شوہر نے حمل کا اقرار کیا  تو امام ابو حنیفہ  کے نزدیک بغیر شہادت کے طلاق واقع ہو جائے گی ، اور صاحبین  کے نزدیک دایہ کی شہادت کی شرط لگائی جائے گی ۔
 ترجمہ:   ١  اس لئے کہ عورت کا یہ دعوی کرنا کہ حانث ہو گیا ہے اس کے لئے حجت ضروری ہے ، اور دایہ کی شہادت اس میں حجت ہے ، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ۔ 
 تشریح:  اگر شوہر نے کہا تھا کہ تم کو بچہ ہو تو طلاق، اور حمل کا اقرار بھی کر لیا ہے، پس عورت نے دعوی کیا کہ بچہ پیدا ہو گیا ہے اور شوہر نے تکذیب کی تو عورت کی بات مان کر طلاق واقع ہو جائے گی ، امام ابو حنیفہ  کے نزدیک طلاق کے لئے مزید دایہ کی گواہی کی ضرورت نہیں ہے ۔
وجہ : اس کی دو وجہ بیان فرماتے ہیں (١) ایک یہ کہ حمل کیلئے بچے کی پیدائش لازم ہے اس لئے شوہر نے حمل کا اقرار کیا تو گویا کہ ولادت کا اقرار کیا، اس لئے اب دایہ کی گواہی کی ضرورت نہیں ہے ، اسی سے طلاق  واقع ہو جائے گی ۔(٢) دوسری دلیل یہ ہے کہ حمل کا اقرار کیا تو عورت کو اس بارے میں امین قرار دیا اس لئے ولادت کے بارے میں اس کی بات مان لی جائے گی ۔
اور صاحبین  فر ماتے ہیں کہ عورت نے طلاق واقع ہو نے کا دعوی کیا ہے  شوہر کے خلاف اس لئے حجت چاہئے ، اوریہاں ایک دایہ کی گواہی حجت ہے اس لئے دایہ کی گواہی ضرور چاہئے ، صرف شوہر کے حمل کا اقرار کافی نہیں ہے ۔ 
 ترجمہ:  ٢  امام ابو حنیفہ  کی دلیل یہ ہے کہ حاملہ ہونے کا اقرار کر اس چیز کا اقرار ہے جس کی طرف وہ پہنچے گا اور وہ ولادت ہے ۔ 
 تشریح:   امام ابو حنیفہ  کی پہلی دلیل یہ ہے کہ شوہر نے حمل کا اقرار کیا تو گویا کہ بچہ پیدا ہونے کا بھی اقرار کیا ، کیونکہ دونوں لازم ملزوم ہے ، اور جب شوہر نے بچہ پیدا ہونیکا اقرار کر لیا تو اب اس سے انکار کرنے کا اعتبار نہیں ہے اس لئے دایہ کی گواہی کی ضرورت 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بابُ تفویض الطلاق 8 1
3 فصل فی الاختیار 8 2
4 تفویض طلاق کا بیان 8 3
5 فصل فے الامر بالید 22 3
6 فصل فی المشیۃ 35 3
7 باب الایمان فی الطلاق 61 1
9 فصل فی الاستثناء 89 7
10 باب طلاق المریض 94 1
11 باب الرجعة 114 1
12 فصل فیما تحل بہ المطلقة 142 11
14 باب الایلاء 156 1
15 باب الخلع 177 1
16 باب الظہار 207 1
17 فصل فی الکفارة 220 16
18 با ب اللعان 251 1
19 باب العنین وغیرہ 280 1
20 اسباب فسخ نکاح 295 1
21 فسخ نکاح کے اسباب 295 20
22 باب العدة 324 1
23 فصل فی الحداد 357 22
24 سوگ منانے کا بیان 357 23
25 باب ثبوت النسب 379 1
26 ثبوت نسب کا بیان 379 25
27 باب حضانة الولد ومن احق بہ 408 1
28 حضانت کا بیان 408 27
29 فصل بچے کو باہر لیجانے کے بیان میں 424 27
30 باب النفقة 428 1
31 فصل فی نفقة الزوجة علی الغائب 455 30
32 فصل کس طرح کا گھر ہو 455 30
33 فصل فی نفقة المطلقة 467 30
34 فصل مطلقہ عورت کا نفقہ 467 30
35 فصل فی نفقة الاولاد الصغار 475 30
36 فصل چھوٹے بچوں کا نفقہ 475 30
37 فصل فی من یجب النفقة و من لا یجب 483 30
38 فصل والدین کا نفقہ 483 30
40 فصل فی نفقة المملوک 504 30
Flag Counter