٣ فلا تظہر فی حق الطلاق لانہ ینفک عنہا (٢١٢٧)وان کان الزوج قد اقر بالحبل طلقت من غیر شہادة عندابی حنیفةوعندہما تشترط شہادة القابلة) ١ لانہ لابد من حجة لدعواہا الحنث وشہادتہا حجة فیہ علیٰ مابینا ٢ ولہ ان الاقرار بالحبل اقراربما یفضی الیہ وہوالولادة
عورتوں کی گواہی کو حجت تامہ کہتے ہیں ، اور ایک دایہ کی گواہی کوحجت ناقصہ کہتے ہیں ۔
ترجمہ: ٣ اس لئے طلاق کے حق میں ظاہر نہیں ہو گا ، اس لئے کہ طلاق ولادت سے الگ ہو سکتی ہے ۔
تشریح:اس عبارت میں یہ بتا رہے ہیں کہ ولادت اور طلاق میں تلازم نہیں ہے کہ ولادت ہو تو طلاق بھی لازمی طور پر ہو ، کیونکہ کہیں طلاق ہوتی ہے اور ولادت نہیں ہوتی ، اور کبھی ولادت ہوتی ہے اور طلاق نہیں ہوتی ، اس لئے ولادت ایک دایہ کی گواہی سے ثابت ہونے سے یہ ضروری نہیں ہے کہ طلاق بھی اسی سے ثابت کی جائے ،اس لئے طلاق کے لئے شہادت کاملہ چا ہئے ۔
ترجمہ: (٢١٢٧) اگر شوہر نے حمل کا اقرار کیا تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک بغیر شہادت کے طلاق واقع ہو جائے گی ، اور صاحبین کے نزدیک دایہ کی شہادت کی شرط لگائی جائے گی ۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ عورت کا یہ دعوی کرنا کہ حانث ہو گیا ہے اس کے لئے حجت ضروری ہے ، اور دایہ کی شہادت اس میں حجت ہے ، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ۔
تشریح: اگر شوہر نے کہا تھا کہ تم کو بچہ ہو تو طلاق، اور حمل کا اقرار بھی کر لیا ہے، پس عورت نے دعوی کیا کہ بچہ پیدا ہو گیا ہے اور شوہر نے تکذیب کی تو عورت کی بات مان کر طلاق واقع ہو جائے گی ، امام ابو حنیفہ کے نزدیک طلاق کے لئے مزید دایہ کی گواہی کی ضرورت نہیں ہے ۔
وجہ : اس کی دو وجہ بیان فرماتے ہیں (١) ایک یہ کہ حمل کیلئے بچے کی پیدائش لازم ہے اس لئے شوہر نے حمل کا اقرار کیا تو گویا کہ ولادت کا اقرار کیا، اس لئے اب دایہ کی گواہی کی ضرورت نہیں ہے ، اسی سے طلاق واقع ہو جائے گی ۔(٢) دوسری دلیل یہ ہے کہ حمل کا اقرار کیا تو عورت کو اس بارے میں امین قرار دیا اس لئے ولادت کے بارے میں اس کی بات مان لی جائے گی ۔
اور صاحبین فر ماتے ہیں کہ عورت نے طلاق واقع ہو نے کا دعوی کیا ہے شوہر کے خلاف اس لئے حجت چاہئے ، اوریہاں ایک دایہ کی گواہی حجت ہے اس لئے دایہ کی گواہی ضرور چاہئے ، صرف شوہر کے حمل کا اقرار کافی نہیں ہے ۔
ترجمہ: ٢ امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ حاملہ ہونے کا اقرار کر اس چیز کا اقرار ہے جس کی طرف وہ پہنچے گا اور وہ ولادت ہے ۔
تشریح: امام ابو حنیفہ کی پہلی دلیل یہ ہے کہ شوہر نے حمل کا اقرار کیا تو گویا کہ بچہ پیدا ہونے کا بھی اقرار کیا ، کیونکہ دونوں لازم ملزوم ہے ، اور جب شوہر نے بچہ پیدا ہونیکا اقرار کر لیا تو اب اس سے انکار کرنے کا اعتبار نہیں ہے اس لئے دایہ کی گواہی کی ضرورت