(٢١٢٢) وان جاء ت بہ لستة اشہر فصاعدایثبت نسبہ منہ اعترف بہ الزوج اوسکت ) ١ لان الفراش قائم والمدة تامة (٢١٢٣) فان جحد الولادة یثبت بشہادة امرأة واحدة تشہدبالولادة حتی لونفاہ الزوج یلاعن) ١ لان النسب یثبت بالفراش القائم
ترجمہ: (٢١٢٢) ا ور اگر بچہ جنا چھ مہینے میں یا زیادہ میں تو اس کا نسب ثابت ہوگا ،شوہر اس کا اعتراف کرے یا چپ رہے۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ شوہر کی فراش قائم ہے اور مدت بھی پوری ہے ۔
تشریح: نکاح سے ٹھیک چھ مہینے پر بچہ دیا تب بھی باپ سے نسب ثابت کیا جائے گا ، کیونکہ فراش بھی ہے اور حدیث کی بنا پر مدت بھی پوری ہے ، اور اگر چھ مہینے کے بعد بچہ دیا تب تو بدرجہ اولی نسب ثابت ہو گا ۔
وجہ: (١) چھ مہینے کے بعد بچہ دیا تو یقین کیا جا سکتا ہے کہ شادی کے بعد حمل ٹھہرا ہے اسلئے یہ بچہ شوہر کا ہے۔اس لئے اس سے نسب ثابت کیا جائے گا۔اگر وہ اعتراف کرتا ہے کہ بچہ میرا ہے تو واضح ہے۔اور اگر چپ رہتا ہے تب بھی نسب ثابت کیا جائے گا ۔کیونکہ بیوی اس کی فراش ہے۔ اور فراش والے سے نسب ثابت کیا جائے گا۔(٢) حدیث میں گزر چکا ہے۔فقال الولد للفراش وللعاھر الحجر، واحتجبی منہ یا سودة۔ (ابو داؤد شریف ، باب الولد للفراش، ص ٣١٧ ،نمبر ٢٢٧٣)
ترجمہ: (٢١٢٣) اور اگر ولادت کا انکار کیا تو ثابت کیا جائے گا نسب ایک عورت کی گواہی سے جو گواہی دے ولادت کی۔ یہاں تک کہ اگر شوہر نے بچے کی نفی کی تو لعان کیا جائے گا ۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ نسب قائم شدہ فراش سے ثابت ہو تا ہے ۔
تشریح : عورت نے نکاح سے چھ مہینے پر بچہ دیا اور شوہر نے ولادت کا انکار کیا تو یہاں دو مرد کی گواہی کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ صرف ایک عورت بچہ پیدا ہونے کی گواہی دے اسی سے نسب ثابت کر دیا جائے گا۔ اور اس پر بھی بچے کا انکار کیا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے تو لعان کیا جائے گا ۔
وجہ: (١) فراش چونکہ پہلے سے قائم ہے اور مدت بھی پوری ہے ، اس لئے اسی سے نسب ثابت ہو جائے گا ، اور ایک عورت کی گواہی بچے کے تعین کے لئے ہے کہ واقعی اسی عورت سے یہی بچہ پیدا ہوا ہے ، اور اس پر بھی شوہر انکار کرے کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے تو اس سے عورت پر زنا کی تہمت ہوئی اس لئے شو ہر کو لعان کر نا ہو گا ۔ (٢) حدیث گزر چکی ہے۔عن حذیفة ان رسول اللہ اجاز شھادة القابلة ۔ (سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی عددھن الی شہادة النسائ، ج عاشر ،ص٢٥٤، نمبر ٢٠٥٤٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک عورت کی گواہی سے نسب ثابت کیا جائے گا۔