(٢١٢١) واذا تزوج الرجل امرأة فجاء ت بولد لاقل من ستةاشہر منذ یوم تزوجہا لم یثبت نسبہ)
١ لان العلوق سابق علی النکاح فلایکون منہ
ترجمہ: (٢١٢١) اگر آدمی نے شادی کی کسی عورت سے اور بچہ جنا چھ مہینے سے کم میں جس دن سے شادی ہوئی ہے تو اس کا نسب ثابت نہیں ہوگا۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ حمل ٹھہرنا نکاح سے بھی پہلے ہے اس لئے شوہر کا نہیں ہو گا ۔
تشریح: مرد نے کسی عورت سے شادی کی ۔اور شادی کے دن سے چھ مہینے کے اندر اندر بچہ دیا تو اس بچے کا نسب باپ سے ثابت نہیں ہوگا۔
وجہ:(١) اوپر گزرا کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔اور یہاں چھ ماہ سے پہلے سالم بچہ جنا تو اس کا مطلب ہوا کہ شادی سے پہلے عورت کسی اور مرد سے حاملہ ہو چکی تھی۔ اور یہ حمل اس شوہر کا نہیں ہے اس لئے اس سے نسب ثابت نہیں ہوگا۔(٢) اس اثر میں ہے ۔عن عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی امیة ان امرأة ھلک عنھا زوجھا فاعتدت أربعة أشھر و عشرا ثم تزوجت حین حلت فمکثت عند زوجھا أربعة اشھر و نصف ثم ولدت ولدا تاما فجاء زوجھا عمر بن الخطاب فذکر ذالک فدعا عمر نسوة من نساء الجاھلیة قدماء فسألھن عن ذالک فقالت امراة منھن انا اخبرک عن ھذہ المرأة ھلک زوجھا حین حملت فاھریقت الدماء فحش ولدھا فی بطنھا فلما أصابھا زوجھا الذی نکحت و اصاب الولد الماء تحرک الولد فی بطنھا و کبر فصدقھا عمر بن الخطاب و فرق بینھما و قال عمر اما انہ لم یبلغنی عنکما الا خیر و ألحق الولد بالاول ۔ ( سنن بیہقی ، باب الرجل یتزوج المرأة بولد لاقل من ستة اشھر یوم النکاح ، ج سابع ، ص ٧٣٠، نمبر ١٥٥٥٩) اس اثر میں ہے کہ دوسرے شوہر سے شادی کے ساڑھے چار مہینے میں ہی پورا بچہ دے دیا تو وہ بچہ اس شوہر کا شمار نہیں کیا گیا بلکہ پہلے شوہر کا شمار کیا گیا ہے۔ (٣) اس اثر میں ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے ۔۔ان عمر اتی بامرأة قد ولدت لستةاشھر فھم برجمھا فبلغ ذلک علیا فقال لیس علیھا رجم فبلغ ذلک عمر فارسل الیہ فسألہ فقال والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة ،وقال : وحملہ وفصالہ ثلاثون شہرا، فستة اشہر حملہ وحولین تمام لا حد علیھا او قال لا رجم علیھا فخلی عنھا ثم ولدت ۔ (سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی اقل الحمل ،ج سابع، ص٧٢٧، نمبر ١٥٥٤٩ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔