(٢١١٩)وقال ابویوسفومحمد یثبت فی الجمیع بشہادة امرأة واحدة ) ١ لان الفراش قائم بقیام العدة وہو ملزم للنسب والحاجة الیٰ تعیین الولدانہ منہا فیتعین بشہادتہاکما فی حال قیام النکاح
ظاہر ہو،یا شوہر اعتراف کرے تو نسب ثابت ہوگا۔
ترجمہ:(٢١١٩)اور امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا ثابت ہوگا تمام میں ایک عورت کی گواہی سے۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ عدت قائم ہونے کی وجہ سے فراش قائم ہے ، اور وہی فراش نسب کو لازم کرنے والی ہے ، اب صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ بچہ اسی عورت سے ہے ، اس لئے دایہ کی شہادت سے متعین ہو جائے گا ، جیسا کہ نکاح کے قائم ہونے کی حالت میں دایہ کی شہادت سے تعین ہو جاتا ہے ۔
تشریح: صاحبین فر ماتے ہیں کہ وضع حمل سے پہلے عورت عدت میں تھی اور فراش قائم تھی اور یہ بچہ اسی فراش کا ہے اس لئے اسی فراش ہی سے نسب ثابت ہو گا ، الگ سے گواہی کی ضرورت نہیں ہے ، صرف یہ تعین کرنے کے لئے کہ یہ بچہ اسی عورت کا ہے ایک دایہ کی گواہی کی ضرورت پڑے گی ، اس لئے تمام صورتوں میں بچے کے تعین کے لئے ایک دایہ کی گواہی کافی ہے ۔ جیسے کہ نکاح قائم ہو تا تو ایک عورت بچہ پیدا ہونے کی گواہی دیتی تو نسب ثابت ہو جاتا ، اسی طرح یہاں فراش موجود ہے اس لئے ایک عورت کی گواہی سے نسب ثابت ہو جائے گا ۔
وجہ: (١) عدت گزار رہی ہے اس لئے کچھ نہ کچھ فراش باقی ہے اس لئے ایک عورت کی گواہی کافی ہے (٢) نسب تو فراش سے ثابت ہو گا ، دایہ سے بچے کا تعین ہو گا جوایک دایہ سے ہو جائے گا ۔(٣) حدیث میں ہے ۔عن حذیفة ان رسول اللہ ۖ اجاز شھادة القابلة۔ (سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی عددھن الی عدد النساء ج عاشر، ص ٢٥٤، نمبر ٢٠٥٤٢) (٤) اثر میں ہے۔عن الشعبی والحسن قالا تجوز شھادة المرأة الواحدة فیما لا یطلع علیہ الرجال (مصنف عبد الرزاق ، باب شہادة امرأة فی الرضاع والنفاس، ج ثامن، ص ٢٥٧، نمبر١٥٥٠٥ سنن للبیہقی ، باب شھادة النساء لا رجل معھن فی الولادة وعیوب النساء ج عاشر، ص ٢٥٣، نمبر ٢٠٥٣٩) اس اثر اور حدیث سے معلوم ہوا کہ ولادت کے بارے میں ایک عورت کی گواہی قابل قبول ہے (٥) حضورۖ نے دودھ پلانے کے سلسلے میں ایک عورت کی گواہی پر نکاح توڑنے کا مشورہ دیا۔پوری حدیث بخاری شریف میں ہے۔عن عقبة بن الحارث قال تزوجت امرأٔة فجائت امرأة فقالت انی قد ارضعتکما فاتیت النبی ۖ فقال وکیف وقد قیل ؟ دعھا عنک او نحوہ (بخاری شریف ، باب شہادة المرضعة، ص ٣٦٣ ،نمبر ٢٦٦٠) اس حدیث میں ایک عورت کی گواہی پر نکاح کے توڑنے کا فیصلہ فرمایا۔