(٢١١٨)واذا ولدت المعتدة ولدالم یثبت نسبہ عندابی حنیفة الا ان یشہد بولادتہا رجلان اورجل وامرأتان الاان یکون ہناک حبل ظاہراواعتراف من قبل الزوج فیثبت النسب من غیر شہادة)
تشریح : تین قسم کی عدت گزارنے والی ہوتی ہے ]١[ معتدہ رجعیہ ]٢[ معتدہ بائنہ ]٣[ معتدہ وفات ۔ اذا اعترفت المعتدة، کا لفظ اپنے مطلق ہونے کی وجہ سے ان تینوں معتدہ کو شامل ہے ۔ ان تینوںقسم کی معتدہ یہ اقرار کر لے کہ میری عدت گزر گئی ہے ، اور اس کے چھ مہینے کے بعد بچہ دیا تو نسب ثابت نہیں ہوگا ۔اور اس سے پہلے بچہ دیا تو نسب ثابت ہو گا۔
ترجمہ:(٢١١٨) جب معتدہ بچہ دے تو نہیں ثابت ہوگا امام ابو حنیفہ کے نزدیک مگر یہ کہ اس کی ولادت کی گواہی دے دو مرد، یا ایک مرد اور دو عورتیں،مگر یہ کہ حمل ظاہر ہو یا شوہر کی جانب سے اعتراف ہوتو اس کا نسب ثابت ہوگا بغیر شہادت کے ۔
تشریح: جو عورت طلاق بائن ، یا طلاق رجعی کی عدت گزار رہی ہے وہ مکمل فراش نہیں ہے عدت کی وجہ سے من وجہ فراش ہے ، اور وضع حمل کے بعد عدت گزر جائے گی تو وہ مکمل اجنبیہ ہو جائے گی ، اور اس کا معاملہ عام معاملے کی طرح ہو جائے گا ، اور اس کو ثابت کرنے کے لئے شہادت کاملہ کی ضرورت ہوگی ، یعنی دو مرد ، یا ایک مرد اور دو عورتیں ۔ ]١[اس لئے اگر پہلے سے شوہر کا اعتراف ہو کہ یہ بچہ میرا ہے تو اس کے اعتراف کی وجہ سے ولادت سے پہلے ہی نسب ثابت ہو جائے گا ، اس میں شہادت کاملہ کی ضرورت نہیں ہو گی ، صرف ایک دایہ کی گواہی اس بات کا تعین کر نے کے لئے کافی ہو گی کہ یہ یہی وہ بچہ ہے جو اس عورت سے پیدا ہوا ہے ۔ ]٢[ یا عدت کے زمانے میں حمل ظاہر ہو تب بھی پہلے سے نسب ثابت ہو جائے گا ، اور شہادت کاملہ کی ضرورت نہیں پڑے گی ، کیونکہ نسب ثابت ہونے کے لئے یہ علامت ظاہرہ ہے ۔]٣[ لیکن اگر پہلے سے حمل ظاہر نہ ہو ، اور شوہر بچہ ہونے کا اقرار بھی نہ کرے ، بلکہ انکار کر دے تو دو مرد ، یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ہو تو نسب ثابت کیا جائے گا۔
وجہ : (١) وضع حمل کے اقرار سے عدت ختم ہو گئی ، اور وہ عورت اس کا بالکل فراش باقی نہیں رہی ، بلکہ اجنبیہ ہو گئی ہے اس لئے یہ عام معاملات کی طرح ہو گیا اس لئے بچہ ثابت کرنے کے لئے مکمل گواہ چاہئے ، صرف دایہ کی گواہی سے نسب ثابت نہیں ہو گا ، کیونکہ دایہ کی گواہی شہادت کاملہ نہیں ہے ۔ (٢) اثر میں ہے ۔عن علی قال لاتجوز شھادة النساء بحتا فی درھم حتی یکون معھن رجل ۔(مصنف عبد الرزاق ،باب شھادة المرأة فی الرضاع والنفاس ،ج ثامن ،ص٢٥٦ ،نمبر ١٥٤٩٩) اس اثر سے معلوم ہوا کہ صرف عورت کی گواہی ولادت کے بارے میں بھی قابل قبول نہیں ہے (٣) آیت میں ہے کہ معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی چاہئے ۔واستشھدوا شہیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان ممن ترضون من الشھدائ۔ (آیت ٢٨٢ ،سورة البقرة٢) اور یہ چونکہ معاملہ ہے اس لئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی چاہئے ،یا پھر حمل