٤ و عندہ یثبت الی سبعة وعشرین شہرالانہ یجعل واطیا فی اٰخرہ العدة وہی الثلٰثة الاشہر ثم تأتی بہ لاکثرمدةالحمل وہوسنتان ٥ وان کانت الصغیرةادعت الحبل فی العدة فالجواب فیہا وفی الکبیرة سواء لان باقرارہا یحکم ببلوغہا (٢١١٥) ویثبت نسب ولدالمتوفی عنہا زوجہا مابین الوفاة وبین السنتین)
ماہ ہوئے ، اس صورت میںوطی کرنے سے رجعت ہو جائے گی۔
ترجمہ: ٤ اور امام ابو یوسف کے نزدیک نسب ثابت ہو گا ستائیس مہینے تک اس لئے کہ آخری عدت میں وطی کرنے والا قرار دیا جائے گا ، اور وہ تین مہینے ہیں ، پھر حمل کے اکثر مدت میں بچہ دیا اور وہ دو سال ہے ۔
تشریح: طلاق رجعی میں امام ابو یوسف کے نزدیک ستائیس مہینے تک نسب ثابت کیا جائے گا ، اس کی صورت یہ ہوگی کہ طلاق کے وقت وہ حاملہ نہیں تھی ، بلکہ طلاق رجعی ہے اس لئے تین مہینے عدت کے آخیر میں وطی کی اور اس سے حمل ٹھہرا ، اور حمل کا اکثر مدت دو سال میں بچہ دیا تو مجموعہ ستائیس مہینے ہو ئے۔
ترجمہ: ٥ اگر صغیرہ نے عدت کے درمیان حمل ہونے کا دعوی کیا تو اس میں اور کبیرہ کے حکم میں جواب برابرہو گا ، اس لئے کہ اس کے اقرار کرنے سے بالغ ہونے کا حکم لگایا جائے گا ۔
تشریح: صغیرہ نے عدت کے درمیان دعوی کیا کہ وہ حاملہ ہے تو یہ اب بالغہ کے حکم ہو گئی ، کیونکہ حمل کے ثبوت سے ، یا حمل کے اقرار سے بالغہ کاحکم لگا دیا جائے گا،]١[ اس لئے اگر طلاق بائنہ ہے تو طلاق سے دو سال تک بچے کا نسب باپ سے ثابت ہو گا ۔]٢[ اور اگر طلاق رجعی ہے تو تین ماہ عدت کے درمیان وطی مانی جا ئے گی اور اس کے بعد دو سال تک نسب ثابت کیا جائے گا ، مجموعہ ستائیس مہینے کے اندر اندر بچہ دے گی تو باپ سے نسب ثابت کیا جائے گا ۔
ترجمہ:(٢١١٥)اور ثابت ہوگا متوفی عنہا زوجہا کے بچے کا نسب وفات اور دو سال کے درمیان۔
تشریح: شوہر کے انتقال کے دن سے دو سال کے اندر اندر بچہ پیدا ہوا تو اس بچے کا نسب شوہر سے ثابت ہوگا اور اس کے بعد ہوا تو باپ سے نسب ثابت نہیں ہوگا ۔
وجہ : (١)دو سال کے اندر بچہ پیدا ہوا تو یہی سمجھا جائے گا کہ وفات کے وقت عورت حاملہ تھی اور یہ حمل شوہر ہی کا ہے۔ اور وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہو گی ،اور وضع حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے اس لئے وفات کے وقت سے دو سال تک بچہ باپ کا ہو گا ۔ اور اگر دو سال کے بعد بچہ دیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وفات کے وقت عورت حاملہ نہیں تھی بعد میں کسی اور سے حاملہ ہوئی ہے، اس لئے باپ سے نسب ثابت نہیں ہوگا۔(٢) اس آیت میں ہے کہ متوفی عنھا زوجھا کی عدت چاہے حاملہ ہو وضع حمل ہے۔