Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 5

387 - 508
٢  ولہما ان لانقضاء عدتہا جہة معینة وہو الاشہر فبمضیہا یحکم الشرع بالانقضاء وہوفی الدلالة فوق اقرارہا لانہ لایحتمل الخلاف والاقرار یحتملہ ٣  وان کانت مطلقة طلاقا رجعیاً فکذلک الجواب عندہما 

اس نے عدت گزرنے کا اقرار نہیں کیا ہے ،اوریہ مدخول بھا اور قریب البلوغ ہے اس لئے یہ شبہ ہے کہ طلاق سے پہلے ہی حاملہ ہو چکی ہے، اور حیض کے بجائے حمل سے ہی بالغ ہو چکی ہو ، اس لئے یہ کبیرہ کی طرح ہو گئی ، اور کبیرہ کے بارے مسئلہ نمبر ٢١١١ میں حکم گزرا کہ اس کو طلاق بائنہ دی ہو تو دو سال تک بچہ شوہر کا شمار کیا جائے گا ، اس لئے جب یہ عورت کبیرہ کے حکم میں ہے تو اس کا بھی دو سال کے اندر نسب شوہر سے ثابت کیا جائے گا ۔اور وضع حمل سے اس کی عدت گزرے گی ۔
وجہ :  یہ قریب البلوغ ہے اس لئے ممکن ہے کہ حمل ٹھہر گیا ہو اور کبیرہ کے حکم میں ہو گئی ہو ، اس لئے دو سال تک نسب ثابت ہو گا۔
لغت:   عورت تین طرح سے بالغ شمار کی جاتی ہے ]١[ حیض آجائے تو بالغ ہو گی ۔]٢[  حیض نہ آئے اور پندرہ سال عمر ہو جائے تو بالغ شمار کی جاتی ہے ۔]٣[ حیض نہ آئے لیکن حمل ٹھہر جا ئے تو حمل ٹھہرنے سے بالغ شمار کی جا تی ہے ، یہاں حمل ٹھہرنے سے بالغ شمار کی گئی ہے ۔   
 ترجمہ:  ٢    امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کی دلیل یہ ہے کہ اس عورت کی عدت ختم ہونے کی جہت متعین ہے ، اور وہ ہے تین مہینے ، اس لئے اس کے گزرنے سے شریعت عدت گزر جانے کا حکم لگائے گی ، اور شریعت کی یہ دلالت عورت کے اقرار سے بھی بڑھ کر ہے ۔کیونکہ شریعت کا حکم خلاف کا احتمال نہیںرکھتا ہے ، اور اقرار خلاف کا احتمال رکھتا ہے ۔ 
تشریح:امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کی دلیل یہ ہے کہ یہ صغیرہ ہے اس کو حیض نہیں آتا ہے شریعت نے تین مہینے کی حد متعین کر دی ہے ، اور تین مہینے میں اس کی عدت گزر ہی جائے گی ،   کیونکہ عورت اقرار کرے کہ میری عدت گزر گئی ، شریعت کا حکم اس سے بڑھ کر ہے ، کیونکہ عورت کے اقرار میں اس بات کا احتمال ہے کہ وہ جھوٹ بو ل رہی ہے ، جبکہ شریعت کے حکم میں جھوٹ کا احتمال نہیں ہے، اور جب تین مہینے پر عدت گزر گئی تو قاعدے کے اعتبار سے اس کے چھ ماہ کے اندر اندر نسب ثابت ہو گا ، اس کے بعد نہیں ، اس لئے مجموعہ نو ماہ ہوئے ۔
ترجمہ:   ٣  اور اگر طلاق رجعی دی ہوئی ہو تو بھی طرفین کے یہاں ایسے ہی جواب ہے ۔
تشریح: اگر صغیرہ کو طلاق رجعی دی تو بھی امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کے نزدیک اوپر والا ہی حکم ہے ۔ یعنی نو ماہ کے اندر بچہ ہو تو باپ سے نسب ثابت ہو گا ۔ اس کی دو صورتیں ہوں گی ]١[ طلاق سے پہلے حمل ٹھہرا ہے ، اور تین ماہ عدت گزرنے کے بعد چھ ماہ کے اندر بچہ پیدا ہوا ، اس صورت میں رجعت نہیں ہوگی ۔ ]٢[ دوسری صورت یہ ہے کہ عدت کے اندر وطی کی اور چھ ماہ میں بچہ پیدا ہوا، مجموعہ نو 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بابُ تفویض الطلاق 8 1
3 فصل فی الاختیار 8 2
4 تفویض طلاق کا بیان 8 3
5 فصل فے الامر بالید 22 3
6 فصل فی المشیۃ 35 3
7 باب الایمان فی الطلاق 61 1
9 فصل فی الاستثناء 89 7
10 باب طلاق المریض 94 1
11 باب الرجعة 114 1
12 فصل فیما تحل بہ المطلقة 142 11
14 باب الایلاء 156 1
15 باب الخلع 177 1
16 باب الظہار 207 1
17 فصل فی الکفارة 220 16
18 با ب اللعان 251 1
19 باب العنین وغیرہ 280 1
20 اسباب فسخ نکاح 295 1
21 فسخ نکاح کے اسباب 295 20
22 باب العدة 324 1
23 فصل فی الحداد 357 22
24 سوگ منانے کا بیان 357 23
25 باب ثبوت النسب 379 1
26 ثبوت نسب کا بیان 379 25
27 باب حضانة الولد ومن احق بہ 408 1
28 حضانت کا بیان 408 27
29 فصل بچے کو باہر لیجانے کے بیان میں 424 27
30 باب النفقة 428 1
31 فصل فی نفقة الزوجة علی الغائب 455 30
32 فصل کس طرح کا گھر ہو 455 30
33 فصل فی نفقة المطلقة 467 30
34 فصل مطلقہ عورت کا نفقہ 467 30
35 فصل فی نفقة الاولاد الصغار 475 30
36 فصل چھوٹے بچوں کا نفقہ 475 30
37 فصل فی من یجب النفقة و من لا یجب 483 30
38 فصل والدین کا نفقہ 483 30
40 فصل فی نفقة المملوک 504 30
Flag Counter